افسانے: دوہرا معیار ۔  ایک سے چار  ۔  تحفہ کیرم


افسانہ
دوہرا معیار

بلاتکار

از۔ عارف نقوی ۔ برلن

 

 


        بھابی جی آ ج بہت جوش میں ہیں۔ غصـے سے کھول رہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے جسم کا سارا خون چہرے پر اوند آیا ہے۔ کبھی جھاڑن ہاتھ سے چھوٹ کر گرتاہے، کبھی چائے کی پیالی ٹوٹ جاتی ہے۔
"میں کہتی ہوں اس حرامزادے کو اتنی لفٹ ہی کیوں دی۔ اتنا قریب آنے ہی کیوں دیا اس کو۔ کیڑے کیوں نہیں پئے۔ کیڑے پڑیں اس کی جوانی میں۔ پتا نہیں کس لفنگے کا بیٹا ہے۔ تجھے کسی ایسے ویسے کی لڑکی سمجھا ہے کیا، اس بدمعاش نے۔ ناکھِد، نِکما۔ رب دی مار پڑے اس پر۔۔۔


سریندر ایک کونے میں سوفے پر بیٹھی ماں کو ٹکر ٹکر دیکھ رہی تھی اوران کے تیور پر دل ہی دل میں محظوظ ہو رہی تھی:
  "اری ماں، اس نے صرف ہاتھ چھوا تھا۔ میں نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔ پھر میری سہیلیوں نے اس کا خوب مذاق اڑایا۔ بس اتنی سی ہی تو بات ہوئی تھی۔"  سریندر نے ماں کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔
"ہٹ وے، چل ہٹ، باتیں نہ بنا۔ تونے ہی تو کہا تھا کہ تیرے کلاس فیلو نے چھیڑا ہے تجھے۔ اری اب اگر اُلٹے سیدھے سَمے پیرگھر سے باہر  نکالا تو کھال کھینچ لوں گی تیری۔ کیا ضرورت تھی کلاس میں اس لونڈے کے قریب  بیٹھنے کی۔اور کوئی جگہ نہیں ملی تھی؟ اری کچھ تو اپنے پریوار کی پریسٹیج کا خیال کیا ہوتا۔ تیرے پِتا ڈاکٹر ہیں کوئی چپراسی یا مالی نہیں۔ تیرا تو لگتا ہے جیسے دھرم ہی نَشٹ ہو گیا ہے۔ بس انگریزی میں گِٹ پِٹ کرتی رہتی ہے اور پُرکھوں کا نام بدنام کرتی ہے۔ جانتی ہے آج تک کسی نے ہمارے پریوار کی کسی لڑکی کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھا تھا۔ "  بھابی کے ہاتھ سے جھاڑن ایک بار پھر زمین پر گر پڑا۔
سندر بھیـا نے اپنی بیٹی کی مدافعت کی:
" ارے تو اس میں بیٹی کا کیا قصور ہے۔آجکل کے لڑکے ہی شرارتیں کرتے ہیں۔ لڑکیوں کو چھیڑتے ہیں۔بس کہیں کوئی خوبصورت لڑکی نظر آجائے۔ میں تو کہتا ہوں یہ سب ہمارے  ایجوکیشن سسٹم کا
کا ہماری شکھشا ویاوستھا کا دوش ہے۔    انھوں نے شکھشا ویاوستھا پر زور دیتے ہوئے کہا۔
"

بھاڑ میں جائے ایسا سسٹم اور ےتمھاری شکھشا"  بھابی نے ایک بار پھر وار کیا اور اپنی بیٹی کو گھور کر دیکھا۔
    سریندر نے اب ایک کتاب ہاتھ میں اٹھا لی تھی اور خاموشی سے ان کی باتیں سن رہی تھی۔ میں بھی ایک طرف اپنے سوفے میں دھنسا ڈائلاگ سن رہا تھا۔ ڈرتا تھا کہ اگر میں نے کچھ کہا تو بھابی کا جوش اور بڑھ جائے گا۔ میں چھٹیوں میں ہولی منانے کے لئے دہلی  آیا ہوا تھا اور فرینڈس کالونی میں اپنے بھائی اور ان کے پریوار کے ساتھ ٹھیرا تھا۔ میرا بڑا بھائی  سندر سنگھ اور بھابی منجیت کور میرے آرام کا پورا خیال رکھتے تھے۔ دونوں مجھ پر دل و جان سے مہربان تھے، اس لئے میں بھی کبھی ان سے بحثوں میں نہیں الجھتا تھا۔ اگر کوئی بات ناپسند ہوتی تو خاموش رہتا ورنہ اپنی پسندیدگی کا اظہار کر دیتا۔ اس لئے اس وقت بھی خاموش رہنا ہی مناسب تھا۔
"ارے رجوندر، تو تو کچھ بولتا ہی نہیں۔ بس اپنی بھتیجی کے نخرے اٹھاتا ہے۔"
منجیت بھابی نے اچنک میری حمایت حاصل کرنا چاہی۔ میں ابھی بھی خاموش بیٹھا رہا۔ جی چاہو کہ کہوں:
' تو اس میں ایجوکیشن سسٹم کا کیا قصور ہے۔ تم لوگ بے کار تعلیمی نظام کو کوس رہے ہو۔ اسی تعلیم کی وجہ سے تو تمھارے میاں ڈاکٹر بن گئے ہیں اور اسپتال میں ملازمت کرتے ہیں۔ تم بھی اسکول میں پڑھانے لگی ہو۔ فیشن کرتی ہو۔ نئے نئے گہنے پہنتی ہو۔'  مگر میں بھابی کی عزت کرتا تھا۔ بڑے بھائی کی موجودگی میں ویسے بھی زبان بند رکھنا مناسب سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے خاموش رہا۔
انھوں نے اپنے پتی کو گھورتے ہوئے کہا: یہ سب سرکار کا دوش ہے۔ ایسے لڑکوں کو سزا دینے کےلئے کچھ نہیں کرتی۔ دیکھا نہیں ابھی کچھ دن ہوئے بس میں ایک لڑکی کو ریپ کر دیا گیا۔
بھابی کی آواز دردناک ہو گئی۔
"کتنی معصوم تھی وہ بیچاری۔  اپنے دوست کے ساتھ بس میں چلی جا رہی تھی۔ غنڈوں نے اسے پکڑ کر بلاتکار کر دیا۔ مار ڈالا ان ظالموں نے بیچاری کو اور بس والا صرف دیکھتا رہا۔ سرکار دیکھتی رہی۔ پولیس دیکھتی رہی۔ شہ دیتی رہی۔ میں تو کہوں گی ان غنڈوں کو، بس والے کو، سڑکوں پر پہرا دینے والوں کو، پوری سرکار کو سب کوپھانسی پر لٹکا دینا چاہئے۔"
"اور نیتائوں کو؟ " بھائی صاحب نے اپنے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے چٹکی لی۔
"سب کو، جتنے نیتا ہیں، نوجوانوں کے گیت گاتے ہیں، سب کو۔"
"تو بچے گا کون؟" اس بار مجھ سے چپ نہ رہا گیا ۔ لقمہ دے ہی دیا۔
"بچے نہ بچے، لاج تو بچ جائے گی۔ ارے تم بھی کیسی باتیں کرتے ہو رجوندر۔ بھیا تم یورپ میں  رہتے ہو تم کیا جانو یہاں کے حال۔ آج کل یہاں دن رات یہی سب ہو رہا ہے۔ کبھی ممبئی میں، کبھی گوآ میں، کبھی۔۔۔ کلجگ ہے کلجگ۔"

میں اچانک خیالات میں گم ہو گیا۔ پرانی یادیں تازہ ہو گئیں۔ 1947 کا ایک مبارک دن تھا۔ ہندوستان کی آزادی اور پاکستان کے قیام کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ دو سو سال کی انگریزی غلامی سے نجات مل گئی تھی۔ چاروں طرف جشن کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ میں اس سب سے بے نیاز مغربی پنجاب کے شہرسیالکوٹ کے قریب ایک قصبے میں سنگتروں کے باغ میں اپنی سرجیت کے ساتھ مناظرِقدرت کے حسن سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ برسات کی سہانی رات تھی۔ پونم کا چاند بادلوں سے آنکھ مچولی کھیل رہا تھا۔ ستارے کبھی جگمگاتے، کبھی بادلوں کی اوٹ میں مُنہ چھپا لیتے۔ کویل کی سریلی کوک ، چڑیوں کی چہچہاہٹیں سندر راگ سناتیں۔ کبھی جگنوئوں کے رقص نظر آتے  اور کبھی پیڑوں سے ٹپکتے سیبوں کی مدھر آوازیں کانوں میں رس گھول دیتیں اور میں اپنی سرجیت کواور کس کر سینے سے لگا لیتا اور وعدہ کرتا کہ اس سے کبھی بے وفائی نہیں کروں گا۔ اسے کبھی دکھ نہ اٹھانے دوں گا۔ اور پھر گانے لگتا: " اے میری ہمدم، گیتوں کے سرگم، پایل کی چھم چھم ۔۔۔"

اچانک پیڑوں کے پیچھے سے سرخی ابھرتی ہوئی نظر آئی اور بڑھتی چلی گئی۔ پھر دور سے شور اٹھا اور قریب آتا چلا گیا اور بھیانک ہوتا گیا۔ اس نے سارے باغ کو  اپنے گھیرے میں لے لیا۔ آزادی کا جشن منایا جا رہا ہے۔ میں نے سوچا۔ شاید پٹاخے داغے جارہے ہیں رہے ہیں۔  آتش بازیاں چھوٹ رہی ہیں۔ آزادی کے نعرے لگائے جا رہے ہیں۔ لیکن ستارے آسمان پر پھیلی ہوئی سرخی میں غائب ہو گئے۔ کویل کی کوک، پپیہے کی پی کہاں، جگنوئوں کے رقص بڑھتے ہوئے شور اور گھٹن میں ڈوب گئے۔ میرے سر پر لاٹھی پڑی اور سرجیت مجھ سے چھین لی گئی۔ سیکڑوں لوگوں کے مجمع میں غائب ہو گئی۔ کچھ دیر اس کی چیخیں سنائی دیں۔ پھر وہ بھی شور میں گم ہو گئیں۔ میں سنگترے کے پیڑ کے نیچے خون میں لتھ پتھ دیر تک پڑا روتا رہا۔ اس دن میرے قصبے کے کئی محلے جلا دئے گئے۔ سیکڑوں لوگوں کو قتل کر دیا گیا۔ سیکڑوں بچے بوڑھے مذہب کے نام پر اَناتھ اور بے سہارا کر دئے گئے، عورتوں کی عصمتیں لوٹ لی گئیں۔
مگر جب میں مغربی پنجاب کو چھوڑ کر رفیوجی کی حیثیت سے مشرقی پنجاب میں آیا تو وہاں بھی ایسے ہی ہولناک مناظر نظر آئے۔ کتنے ہی گھروں کو مسمار کر دیا گیا تھا۔ بوڑھے بچوں کو خون میں نہلایا جا رہا تھا۔  عورتوں کی عصمتیں لوٹی جارہی تھیں کیونکہ ان کے ناموں کے ساتھ بیگم اورسلطانہ جیسے لقب لگےہوئے تھے۔ یہ سب دھرم کے نام پر ہو رہا تھا۔ اس وقت نہ کوئی باپ اپنے بیٹے کو مجرم سمجھ رہا تھا ، نہ کوئی ماں اپنی اولاد کو ، نہ کوئی بہن اپنے بھائی کو۔ کسی کی زبان سے یہ نہیں نکلتا تھا کہ تو گنہگار ہے، کلنکی ہے، مجرم ہے۔ تو نے شادی شدہ ہوتے ہوئے  کسی عورت سے بلاتکار کیا ہے۔  دوسرے کی بہن کی عزت لوٹی ہے۔ کسی ماں کی بیٹی چھینی ہے۔ کسی بچے کو یتیم بنایا ہے ،مذہب، دھرم، اللہ ، بھگوان اور گورو کے نام پر۔ تو دھرم کا بھی دوشی ہے۔ بھگوان، خدا اور گورو کا بھی دوشی ہے، گنہگار ہے، کلنکی ہے۔ تو اس قابل نہیں کہ مجھے ماں کہکر پکار سکے، مجھے بہن کہکر گلے لگا سکے، مجھے باپ کہکرمیرے سینے سے لگ سکے۔ انسانیت، بھائی چارہ۔ امن اور ۤآشتی جیسے اُپدیش جو میں بچپن سے سنتا آیا تھا بے معنی ہو گئے۔

پھر انھیں دنوں مہاتما گاندھی کی ہتیا کی خبر آئی۔  انہیں کے ایک ہم مذہب نے انھیں ہلاک کیا تھا۔ اس جرم میں کہ انھہوں نے انسانیت اور قومی ایکتا کے حق میں باتیں کیں تھیں۔ سارا دیش ان کے سوگ میں ڈوب گیا۔ ہر طرف ان کی انسانی خدمات، قومی ۤآزادی  اور قومی ایکتا کے لئے قربانیوں کو یاد کیا جا رہا تھا۔ بھجن گائے جا رہے تھے۔ میں نے ان کے اُپدیش پڑھے،  کرشن چندر اور دوسرے اردو اور پنجابی ادیبوں کی فرقہ  وارانہ فسادات کے خلاف کہانیاں اور نظمیں پڑھیں اور میرا وشواس پھر سے واپس آگیا اور میری سمجھ میں آیا کہ مذہبی جنون مذہبی نہیں، مذہب کے نام پر انسانی پاگلپن ہے۔

مشرقی پنجاب آنے کے بعد میں امرتسر کے قریب ایک گائوں میں کھیتی کرنے لگا۔ بھائی صاحب کو شہر کے ایک اسپتال میں ملازمت مل گئی۔ انھوں نے مجھے بھی وہاں بلا کر ایک اسکول میں داخل کر دیا۔ پھر میں انٹر میجیٹ کرنے کے بعد کسی طرح جرمنی چلا گیا اور ایک ریستوراں میں کام کرنے لگا۔ اکثر اپنے ملک کے بارے میں خبریں پڑھتا، پرانے دوستوں اور رشتے داروں کو یاد کرتا۔ اپنے البم کو کھول کر سرجیت کی تصویریں دیکھتا۔ اس کی یاد میں تڑپتا، لیکن اس کی کوئی خبر نہیں ملی۔ جرمنی میں کئی لڑکیوں سے دوستی کرکے سرجیت کو بھلانے کی کوششیں کیں، لیکن اس کا خوبصورت گلاب سا چہرہ، شربتی آنکھیں، مدھر آواز ، پیار بھری باتیں اور اس کی کربناک چیخیں نہیں بھلا سکا۔ کبھی کبھی جب جرمن اخبارات میں پڑھتا تھا کہ ہندوستان میں کسی نیچی ذات کی عورت کے ساتھ بلاتکار کیا گیا ہے، کسی غیر مذہب عورت کی عزت لوٹی گئی ہے یا کسی ٹورسٹ عورت کی آبرو کو لوٹا گیا ہے اور ایسے کیس پولیس کے رجسٹر میں درج کئے گئے ہیں لیکن کوئی کاروائی نہیں ہوئی ہے، کسی خاندان نے ایسے مجرم کو خاندان سے باہر نہیں کیا ہے، کسی برادری نے اسے خارج نہیں کیا ہے یا جب جرمن ٹی وی پر دیکھتا کہ پاکستان میں کسی لڑکی کو اس لئے والدین نے قتل کردیا ہے  کہ وہ ان کی مرضی کے خلاف اپنی پسند کے لڑکے سے شادی کرناچاہتی تھی اور اپنے عشق میں دیوانی ہو رہی تھی یا  برادری والوں نے کسی عور ت کی اس لئے عزت لوٹ لی ہے کہ وہ اپنے شوہر سے طلاق لینا چاہتی تھی اور عدالت ان مجرموں کے خلاف کارروائی کرنے سے قاصر ہے، تو مجھے 1947 کی وہ ہولناک رات یاد آجاتی تھی ، جب میری سرجیت کو مجھ سے چھین لیا گیا تھا اور ساتھ ہی میرے ذہن میں پنجاب کے وہ مناظر تازہ ہو جاتےتھے، جب سرجیت جیسی کتنی ہی معصوم زلیخائوں کو لوٹا گیا تھا۔
اس وقت بھی میں ان یادوں میں ڈوب گیا تھا اور وہ ہولناک مناظر میری نظروں کے سامنے گھوم رہے تھے۔


بھابی نے میرے خیالات کا سلسلہ توڑتے ہوئے کہا
"ارے رجوندر بھیا، تمھیں کیا خبر ہمارے دیش میں کیا ہو رہا ہے۔ تم تو جرمنی میں رہتے ہو، سمجھتے ہو یہاں سورگ ہے۔ میں تو کہتی ہوں کلجگ آگیا ہے۔"
پھر وہ اپنی بیٹی سے مخاطب ہوئیں
 تجھے تو تیرے پِتا نے لاڈپیار سے ڈھیٹ بنا دیا ہے۔ کچھ آگے پیچھے کی سوچتی ہی نہیں۔ آجانے دے اپنے منوہر بھیا کو تیرے دیدے نکلوا دوں گی اس سے اور تیرے کالج کے ساتھیوں کی کھالیں کھنچوا لوں گی۔۔۔ان کی مجال کیسے پڑی کہ تجھے چھیڑا۔"
منوہر میرا بھتیجا تھا۔ جب میں جرمنی گیا تھا تو پندرہ سال کا تھا اور ایک اسکول میں پڑھتا تھا۔ اب دس سال کے بعد آیا ہوں تو کافی سیانا ہو گیا ہے اور بی۔اے۔ کر چکا ہے۔ نوکری کی تلاش میں بھٹکتا رہتا ہے۔ شادی اس لئے نہیں کی ہے کہ والدین کو زیادہ جہیز دینے والے سمدھی نہیں ملے اور اگر ملتے ہیں تو پوچھتے ہیں کہ لڑکا کہاں کام کرتا ہے؟ اس کی کتنی آمدنی ہے؟ منوہر مجھ سے کئی بار کہہ چکا ہے کہ میں اسے جرمنی میں بلا لوں۔ لکین اب جرمنی میں کسی کو بلانا آسان نہیں ہے۔
" ہاں، منوہر کہاں ہے؟" میں نے پوچھا۔
" ارے اس کا کیا۔ ہوگا کسی چائے خانے میں لونڈوں کے ساتھ۔ ۔ صاحبزادے بی۔اے۔ کرچکے ہیں، مگر کہیں نوکری نہیں کرتے۔ بس گھومتے رہتے ہیں دوستوں کے ساتھ، ادھر ادھر۔۔۔"  بھائی صاحب نے کہا۔ پھر انھوں نے نوکر کو زور سے آواز دی
" چھوٹو، منوہر بابو کہاں ہیں؟ دیکھو وہ اپنے کمرے میں آیا یا نہیں؟ :
چھوٹو نے کوئی جواب نہیں دیا۔ خاموش ایک طرف سر جھکائے بیٹھا رہا۔
" ابے ، جا کر دیکھتا کیوں نہیں۔" بھائی صاحب کو واقعی غصہ آگیا۔۔  "کھانے کا وقت ہو رہا ہے۔ ابھی تک خبر نہیں لی۔"
چھوٹو نے اپنی جگھ سے ہلے بغیر بے بسی سے سر اٹھایا:
" وہ نہیں آئیں گے صاحب۔ وہ کہیں چلے گئے ہیں۔"
"کیسے چلا گیا۔ اسے نہیں معلوم کہ اس کی بہن کے ساتھ چھیڑخانی کی گئی ہے اور اس کے چاچا جی بھی انتظار کر رہے ہیں۔ جا ابھی بلا کر لا۔"
" نہیں مالک انھیں کوئی نہیں لا سکتا۔ آپ کےڈرائیور نے۔۔۔"  چھوٹو نے دبی زبان سے کہا: " وہ آپ کا جو ڈرائیور ہے سَمپت،  اس نے پولیس میں رَپٹ کی ہے۔ یہ سنتے ہی چھوٹے سرکار کہیں دور چلے گئے ہیں۔"
" کیا بکتا ہے۔ پاگل ہوا ہے۔ وہ گدھا، نمک حرام۔ میرے ٹکڑوں پر پلتا ہے۔ رپورٹ کیوں کرے گا۔ اس کی اتنی ہمت کیسے ہو سکتی ہے۔"
" یہ سچ ہے مالک۔۔۔" چھوٹو نے جھاڑن سے آنکھیں پونچھتے ہوئے کہا: " اس کا کہنا ہے کہ چھوٹے سرکار نے اس کی بیٹی کے ساتھ۔ ۔۔۔ وہ اسپتال میں ہے مالک ۔۔۔"
سندر بھیا کی آنکھیں سرخ ہو گئیں۔ آواز میں شیر کی گرج پیدا ہو گئی۔ میں نے زندگی میں پہلی بار  انھیں کسی کے منہ پر طمانچہ مارتے ہو ئے دیکھا۔ وہ غصے میں دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ منجیت بھابی زاروقطار رونے لگیں۔ سریندر کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں۔ اس کی آنکھوں کا کاجل بہ کر گالوں پر پھیل گیا۔ کمرے میں گھٹن بڑھ گئی۔


اس واقعے کو کئی دن ہو گئے ہیں۔ گھر میں  اُداسی چھائی ہوئی ہے۔ سندر بھیا زیادہ تر اسپتال میں رہتے ہیں، بہت کم گھر آتے ہیں۔ بھابی کی آنکھیں روتے روتے سوجھ گئی ہیں۔ کپڑے بھی نہیں بدلے۔ بس خاموش ایک کوچ پر بیٹھی رہتی ہیں اور نہ جانے کیا بُد بُداتی رہتی ہیں۔ سریندر کا چہرہ بھی سوکھ گیا ہے۔ آنکھوں میں اداسی جھلکتی رہتی ہے۔ کئی دنوں سے کالج بھی نہیں گئی ہے۔  میری واپسی کے دن بھی قریب آرہے ہیں۔ ایک ہفتے بعد مجھے جرمنی واپس جانا ہوگا، سندر بھیا، منجیت بھابی  اور سریندر کو اسی حالت میں چھوڑ کر۔ عجیب بے بسی کا احساس ہو رہا ہے۔  منوہر کا ابھی تک کوئی پَتا نہیں ہے۔ نہ جانے کس حال میں ہے۔

شام کا دھندھلکا بڑھنے لگا تھا۔ چھوٹو کھانے کے کمرے میں بتیاں جلا کر اور میز پر کھانا سجا کر ایک طرف اُکڑوں بیٹھ گیا تھا۔ اس میں کسی سے کچھ کہنے کی ہمت نہیں تھی اور میں کوشش کر رہا تھا کہ منجیت بھابی اور سریندر کو کچھ کھانے پر آمادہ کر لوں۔ اچانک سریندر کے منہہ سے ایک زوردار چیخ نکلی اور پھر منجیت بھابی بھی چیخیں۔


دروزے پر منوہر کھڑا تھا۔  اُداس، پریشان حال اور نروس۔

منجیت بھابی دروزےکی طرف دوڑیں":ہائے میرا بیٹا، میرا کلیجہ۔۔۔" سریندر نے بھی دوڑ کربھائی کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔ منجیت بھابی نے بیٹے کو سینے سے لگاتے ہوئے کہا
 ہائے میرا کلیجہ، میرا بیٹا، میرا لعل،  تو نے کچھ کھایا بھی نہیں" 

اور پھر اس کو چھاتی سے لگا کر بے تحاشا گالوں کو چومنے لگیں۔

مجھے ایسا لگا جیسے پس منظر میں کوئی جوان لڑکی اپنا پیٹ پکڑے ہوئے درد سے تڑپ رہی ہے اور اس کی کربناک آوازیں میرے کانوں میں گونج رہی ہیں۔ پھر وہ آوازیں میری سرجیت کی آوازوں میں بدل گئیں اور سیکڑوں، ہزاروں، لاکھوں چیخیں کانوں میں گونجنے لگیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از۔ عارف نقوی
Rudolf-Seiffert-Str. 58
10369 Berlin, Germany
Phone: 0049-30-9725036

 

 

کہانی

ایک سے چار

عارف نقوی

 

 

اسّی برس کے بوڑھے نے نا بالغ لڑکی سے شادی کرلی۔
منشی تلارام نے نیادیس کی ایک خبر سناتے ہوئے کہا۔
بوڑھے کے دانت ہل رہے تھے اور تین جوان بیٹے موجو د
تھے۔ دوشیزہ چندے آفتاب چندے ماہتاب تھی۔ شادی کے تیسرے
روز بوڑھے کے جوان بیٹے کو بھگا لے گئی۔۔
سیٹھ جی کی دونوں ایڑیاں اچھل کر فرش پر آگئیں اور موٹی
موٹی پنڈلیاں ہلنے لگیں۔ وہ ایک آرام کرسی پر دراز تھے۔ دھوتی اور
شلوکے کے درمیان ناف کا حصّہ صاف نظر آرہا تھا۔ میز پر اخبارات
کا ڈھیر لگا ہُوا تھا۔ بغل کے کمرہ میں سیٹھ جی کی چہیتی دختر شیلا سنگھار
کر رہی تھی اور گنگنا رہی تھی۔
منشی تلارام اپنے جسم کا سارا بوجھ پنجوں پر ڈالتے ہوئے
اخبارات کی اہم خبریں سنا رہے تھے۔

روہتک کے ایک گاؤں میں عجیب و غریب بچّہ پیدا ہُوا ہے۔
کیا ہُوا ہے، منشی جی؟
شیلا نے ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔
اوہ، ریلی ونڈرفُل really wonderful) ) ڈیڈی پھر تو
دیس کی باگ ڈ ور اسی کے ہاتھ میں ہونی چاہئے۔ چار سر ہیں تو چار
دماغ بھی ہوںگے۔ ایک دماغ ہوگا اتّر دماغ، دوسرا دکھن، تیسرا پورب،
چوتھا پچھم دماغ۔ اور ان سے وہ سارے دیش کو چاروں طرف نچائے
گا۔۔اور ڈیڈی چار ہاتھوں سے چار قسم کے کام کرے گا۔ چار ٹانگوں سے
چومکھی چال چلے گا اور چار زبانوں سے ایک ساتھ چار طرح کی تقریریں
کر سکے گا۔
شیلا اپنی ہنسی برداشت نہ کر سکی۔
میں تو کہتی ہوں ڈیڈی دیش کا کلیان (کلیانڑ) یہی بالک کرے
گا۔ کیوں منشی جی ؟۔۔۔
منشی جی کا چہرہ پچک گیا۔ دانت باہر نکل آئے۔
ہاں بٹیا، اپنے چھیتر سے ٹکٹ بھی اسی کو ملنا چاہئے۔
انہوں نے ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا۔
سیٹھ جی کو ایسا لگا، جیسے کسی نے گالی دیدی ہو۔ غصّہ میں منہ
پھاڑ کر رہ گئے۔ پیشانی پر ایک موٹی سی شِکن نمودار ہوگئی۔ شکن پہلے
ایک ہوئی، پھر دو، پھر تین اور پھر چار شکنیں۔
منشی جی کے لئے یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ وہ سیٹھ مانک رام کے
عادات و اطوار سے اچّھی طرح واقف ہیں۔ یہ شکنیں روز نمودار ہوتی
ہیں۔ پہلے ایک، پھر دو، پھر تین اور پھر چار۔ اور پھر آپ ہی آپ ساری
شکنیں غائب ہوجاتی ہیں۔ ان شکنوں کی تکمیل میں پورا آدھا گھنٹہ صرف
ہوتاہے، لیکن غائب ہونے میں صرف ایک لمحہ۔۔۔ان شکنوں ہی میں
کائنات کے راز پنہاں ہیں۔۔۔شکن اگر دولتمند کی ہو تو راز اور بھی زیادہ
پراسرار اور اہم ہوتے ہیں۔
ویسے سرکار اس بار چناؤ میں ٹکٹ تو صرف آپ ہی کو ملنا چاہئے۔
منشی تلا رام نے بات پلٹ دی۔ اور سیٹھ مانک رام کے ماتھے
کی ایک شکن کم ہو گئی۔ شیلا کے نقرئی قہقہوں کی آواز اب دوسرے
کمرے سے آ رہی تھی۔
اور سرکار! گنگا میں باڑھ آگئی۔ کانپور ڈوب رہا ہے۔
سیٹھ جی گھبرا کر کھڑے ہو گئے۔
پیلی بھیت میں گومتی نے خطرہ کا نشان پار کر لیا۔ منشی تلا رام
نے اگلی سرخی پڑھتے ہوئے کہا۔


سیٹھ جی ٹہلنے لگے۔ چہرہ پر زردی چھا گئی تھی۔ وہ سوچ رہے تھے:
اب ان کے دروازہ پر چندہ مانگنے والوں کا تانتا بندھ جائے گا۔ خون پسینے
کی کمائی لٹنے لگے گی۔ ایک سے ایک مسٹنڈا آئے گا اور کہے گا:
چندہ دے دو ۔۔۔ عورتوں بچّوں کے نام پر چندہ دے دو۔
ہونہہ، چندہ، چندہ، چندہ۔۔۔ دولت جیسے صرف بانٹنے کے لئے جمع کی
جاتی ہے۔
سیٹھ جی کی ڈیوڑھی سے روز فقیروں کو بھیک دی جاتی ہے۔
لیکن انہیں چندہ مانگنے والوں سے چڑھ ہے۔ بھکاری ایک نئے پیسے
کے بدلے دعائیں دیتے ہیں۔ مگر چندہ مانگنے والے صرف باتیں
بناتے ہیں اور رقمیں لے جاتے ہیں۔ اس وقت بھی سیٹھ جی کو یہی فکر
تھی۔ انہیں ایسا لگ رہا تھا، جیسے چاروں طرف سے چندہ خور ٹوٹ
پڑے ہوں۔
منشی جی کہہ رہے تھے:
حضور ، یہی سمے ہے ! پیلی بھیت میں باڑھ آئی ہے ، تو کل
اپنے نگر میں بھی آئے گی۔
یہی تو رانا ہے تلارام! اپنے نگر کے لوگ پیڑِت ہوں گے تو
آ کر ہماری جان کھا ئیں گے۔
نہیں سرکار۔۔۔ منشی جی نے سمجھانا شروع کیا۔ اس سمے
آپ نے چندہ دے دیا تو ووٹ سدا کے لئے پکّے سمجھئے۔ جتنی رقم
آپ چناؤ پر خرچ کرنے والے ہیں، اس کا کچھ حصّہ چندے میں
دے دیجئے گا۔۔۔اور بس پھر دیکھئے گا۔۔۔
سیٹھ جی کا ذہن واقعی کام کرنے لگا۔ وہ سوچ رہے تھے:
سیلاب آئے گا ، تو بیماری پھیلے گی۔ اور بیماری پھیلے گی تو ان
کے کارخانے کی بنی ہوئی دوائیں مہنگی ہو جائیں گی۔۔۔ قیمتیں پہلے
دوگنی ہوں گی، پھر تگنی اور پھر چوگنی اور دس گنی ہو جائیں گی۔ انسان
مرتے رہیں گے ۔ تجوریاں بھرتی رہیں گی۔
سیٹھ مانک رام کو ایسا محسوس ہوا جیسے وہ اچانک دنیا کے
سب سے بڑے انسان بن گئے ہوں۔ ان کے چاروں طرف
سونے چاندی کا انبار لگ گیا ہو۔ ہر طرف دولت کی بارش ہونے لگی
ہو اور انسانی لاشوں پر ناچتی ہوئی سرمائے کی قلو پطرہ کے حسن سے
آنکھیں چکا چوند ہوگئی ہوں۔
لیکن خیالات کا یہ سلسلہ زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔ رمولا شیلا کو
لینے آئی تھی۔ دونوں ایک دوسرے کی گردن میں بانہیں ڈالے ہنستی
ہوئی کالج جا رہی تھیں۔ سیٹھ جی کہہ رہے تھے:
منشی جی شیلا میرا جیون ہے۔ یہ دولت میں اسی کے لئے تو
جمع کر رہا ہوں۔
اور منشی تلا رام نے اپنی تیز آنکھوں میں چمک پیدا کرتے
ہوئے تعریف شروع کردی تھی:
لکشمی کا روپ ہے ہماری شیلا بٹیا۔ کتنا خوش قسمت ہوگا وہ
جس کے گھر یہ دیوی بن کرجائے گی۔
عام طور سے کسی لڑکی کے باپ کو خوش کرنے کے لئے یہی
نسخہ سب سے کارگر سمجھاجاتا ہے۔ لیکن سیٹھ جی خوش نہ ہوئے۔ ان
کے ماتھے کی تیوریاں پھر اجاگر ہو گئیں۔
شیلا کی ماں کو مرے ہوئے تیرہ برس ہو چکے تھے۔ تب سے
سیٹھ جی نے ہی اسے پالا تھا۔ اس کی خاطر انہوں نے دوسری شادی
نہیں کی۔ اس کی ذرا سی تکلیف پر کتنی ہی راتیں آ نکھوں میں کاٹ
دیں۔ ۔۔وہ شیلا کے پتا ہی نہیں ، اسکی ماں بھی تھے۔ پھر وہ شیالا سے
جدائی کا تصور کیسے کر سکتے تھے۔ شیلا جس کے لئے ان کی ساری محبّت
وقف ہے۔شیلا جو ان کی لاڈلی بیٹی ہے۔ شیلا جو حسین ہے۔
خوبصورت ہے۔ جس نے زندگی کی صرف سترہ بہاریںدیکھی
ہیں۔ جو اپنے کالج کی ایک ہو نہار طالبہ ہے اور جس کی جدائی
کا تصور سیٹھ جی کے لئے ناقابلِ برداشت ہے۔
اور پھر واقعی گومتی نے اپنے غیض و غضب کا مظاہرہ کیا۔
شہر اور اس کے چاروں طرف تباہی اور بربادی کا راج قائم ہو گیا۔
سرسبز و شاداب کھیت بہہ گئے۔ فلک بوس تاریخی عمارتیں ڈھا گئیں۔
ہزاروں مکانات ادنی تنکوں کی طرح انسانی خون کی پیاسی مو جوں
کے رحم و کرم پر تیرنے لگے۔ علم و تدریس کے مرکز تباہ ہو گئے۔
صدیوں پرانی تہذیب غلاظت میں ڈوب گئی۔ تمد ن مٹ گیا۔
صاف و شفّاف جسموں پر غلاظت کی تہیں جم گئیں۔ ان کا گداز
ختم ہو گیا۔
اور پھر لوگ سکون سے سانس لینے بھی نہ پائے تھے ، کہ
ایک اور آفت نازل ہو گئی۔ بیماریاں پھوٹ نکلیں۔ ہیضے نے
سارے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ہسپتال کم پڑ گئے۔لاشیں
سڑنے لگیں۔ خوبصورت شاہراہیں اور گلی کوچے، شاعر جن کی
قصیدہ خوانی کرتے تھے، تعفن سے بس گئے۔ نہ لاشوں کی
گاڑیاں، نہ کفن کا کپڑا، نہ دفنانے کو گورکن۔ صرف موت تھی
جو ہر طرف منڈلا رہی تھی۔
دوائیں آج بھی سیٹھ جی کے کارخانے میں تیار ہوتیں،
لیکن مارکیٹ میں آنے کے بجائے خفیہ گوداموں میں پہونچ
جاتیں۔ اور پھر جب مارکیٹ میں آتیں تو ان کی قیمتیںکئی گنا
زیادہ ہو تیں۔ البتّہ سیٹھ جی کو اس بات کا رنج تھا، کہ سیٹھ چوکھر
مَل، سیٹھ للوداس، لالہ کلو رام اور شیخ نبی اللہ ان سے زیادہ منافع
کما رہے تھے ا ور باہر سے آئی ہوئی ساری دوائیں پہلے ہی ان
کے خفیہ گو داموں میں پہونچ رہی تھیں۔ تاہم سیٹھ جی کا اپنا منافع
بھی کم نہ تھا۔

قیمتیں پہلے دوگنی ہوئیں، پھر تگنی اور پھر چوگنی۔ اور پھر
چیزوں میں ملاوٹ ہونے لگی۔ لیکن اتنا ہی کافی نہ تھا ۔ اس لئے
اصلی دواؤں کی جگہ نقلی دواؤں نے لے لی۔ انسانیت مرتی رہی
صرف سیٹھ چوکھر مل، سیٹھ للو داس، لالہ کلو رام ، شیخ نبی اللہ اور
سیٹھ مانک رام کی تجوریاں بھرتی رہیں۔ اور انگریزی، ہندی
اور اردو کے تمام اخبارات میں جلی حروف میں شائع ہوا:
مشہور سماج سیوک سیٹھ مانک رام نے انسانیت کو
بچانے کے لئے ایک اور دوا سازی کا کارخانہ قائم کرنے کا
فیصلہ کیا ہے۔

زندگی میں پہلی بار اس نے غم کو اتنے قریب سے دیکھا تھا۔
ہوش سنبھالنے کے بعدسے پہلی بار شیلا کی خوبصورت آ نکھوں سے
نکل کرآنسوؤں نے اتنی بےِ رحمی سے اس کے آتشی رخساروں کو چوما
تھا۔ اس کی سب سے پیاری سہیلی رمولا کا باپ بسترِ مرگ پر پڑا ہو
ا تھا۔ رمولاکی ہچکیوں اور اس کی ماں کے گریوں سے گھر میں کہرام
مچا ہوا تھا۔
تھوڑی دیر قبل شیلا بہت خوش تھی۔ سیٹھ جی نے اس کے کہنے
سے کالج ریلیف فنڈ میںتین ہزار کا چیک دیا تھا۔ آج کالج میں اس کی
دھوم مچنے والی تھی۔ پرنسپل بھرے جلسے میں اس کی اور اس کے پِتا جی
کی تعریف کرنے والی تھیں۔ سہیلیاں اسے مبارکباد دینے والی تھیں۔
اسی خوشی میں اس نے طرح طرح کے پروگرام بنائے تھے۔ اس
نے سوچا تھا رمولا کے گھر جائے گی۔ اسے تین ہزار کا یہ چیک دکھائے
ٍ گی۔ پھر وہ دونوں کالج میںپہونچ کر سب کو حیرت میں ڈال دیں گی۔
لیکن رمولا کے گھر پہونچ کر وہ یہ سب کچھ نہ کر سکی۔ رمولا
کے پتا جی بسترِ مرگ پر پڑے ہوئے تھے۔ رات انہیں قے دست
شروع ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے موت ہیضے کی شکل میں منڈلانے
لگی۔
رمولا شیلا کے سینے سے لگی ہوئی بچّوں کی طرح بلک رہی تھی
اور شیلا کی اپنی آنکھوں سے بھی آنسو جاری تھے۔
رمولا اس کی سب سے پیاری سہیلی تھی۔ دونوں نے اکٹھے
ہائی اسکول کیا تھا اور اب ایف اے کی تیاری کر رہی تھیں۔
ڈاکٹر کبیر کے چہرہ پر مایوسی کی زردی اور مریض کے جسم پر
موت کی سیاہی چھاتی چلی گئی۔ دوائیں، انجکشن، رمولا کی فریاد، اس
کی ماں کے نالے سب بیکار ہو گئے۔ یتیمی کا سایہ رمولا کے سر پر
چھا چکا تھا۔ شیلا کا دم گھٹا جا رہا تھا۔ لاش کی ڈراؤنی آنکھیں اسے گھور
رہی تھیں۔اس رات وہ کافی دیر سے گھر واپس آئی اور سیٹھ جی کے
سینے سے لپٹ کر دیر تک روتی رہی۔

دوسری صبح سیٹھ مانک رام کہہ رہے تھے:
ڈاکٹر میری ساری دولت لے لو، مگر میری بچّی کو بچا لو۔
اسے بچا لو ڈاکٹر، بھگوان کیلئے۔
سیٹھ جی کے بنوائے ہوئے تمام مندروں میں شیلا کی صحت
کے لئے دعائیں مانگی جا رہی تھیں۔ بھکاریوں میں کھانا تقسیم کیا
جا رہا تھا۔ چار نامور ڈاکٹر شیلا کی مسہری کے گرد جمع تھے۔ میز پر
دواؤں اور انجکشنوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر قبل شہر کے سب
سے بڑے طبیب ڈاکٹر شرما نے کہا تھا، کہ معمولی ہیضے کا حملہ ہے ۔
جلد ٹھیک ہو جائے گی۔ لیکن شیلا کی قے دست میں اضافہ ہوتا گیا۔
ڈاکٹر بڑھتے گئے۔ ایک سے دو، دو سے تین اور تین سے چار ہو گئے۔
موت قریب آتی گئی۔ سیٹھ جی کی زندگی تاریک ہوتی گئی۔ ان کی
پیاری شیلا ہمیشہ کے لئے بچھڑ رہی تھی۔ ان کی نگاہوں کی روشنی
گل ہو رہی تھی۔ شیلا جو ان کی زندگی کا حاصل تھی۔ جس کے لئے
انہوں نے کائنات کی ساری خوشیاں سمیٹی تھیں۔ جو ان کی ساری
دولت کی اکیلی وارث تھی۔
بھگوان کے لئے میری بچی کو بچا لو ڈاکٹر! بچا لو ! میں اس
کے بغیر زندہ نہ رہ سکوں گا۔ میری ساری دولت لے لو ، مگر اسے
بچا لو ۔۔۔۔
سیٹھ جی نے ڈاکٹر شرما کو پاگلوںکی طرح جھنجھوڑ دیا۔
ڈاکٹر شرما کے ہاتھ سے شیشی گرتے گرتے بچی۔ انہوں نے اپنی
ویران آنکھون سے شیلا کے بے جان جسم کو دیکھا۔ ڈاکٹرمبین نے
آہستہ سے کان میں کچھ کہا۔ ڈاکٹر شرما نے دوا کی شیشی پر نظر ڈالی
اور اسے دیر تک گھورتے رہے۔ چاروں ڈاکٹروں نے ایک
دوسرے کو معنی خیز نظروں نے دیکھا۔۔۔ اور ڈاکٹر شرما نے شیشی
سیٹھ جی کی طرف بڑھا دی۔
یہ نقلی ہیں سیٹھ جی۔ ہم مجبور ہیں۔
ڈاکٹر نریندر نے مریضہ کی نبض چھوڑدی۔ ڈاکٹر مبین نے
آلہ سینے پر سے ہٹا لیا۔ ڈاکٹر سنتوک نے چہرہ کو چادر سے ڈھانپ
دیا۔۔۔چاروں ڈاکٹر سر جھکائے واپس چلے گئے۔
سیٹھ مانک رام پر سکتہ کا عالم طاری تھا۔ سامنے میز پر
دواؤں اور انجکشنوں کا انبار لگا ہوا تھا۔ ۔۔۔ انجکشن جو نقلی تھے۔ ۔
۔دوائیں جن میں ملاوٹ تھی۔۔۔ جن سے سیٹھ جی نے لاکھوں
روپئے کمائے تھے۔

کمرہ میں موت کا سکوت تھا۔ جس میں کبھی کبھی نوکروں کی گھٹی گھٹی
سسکیاں بلند ہوجاتیں اور ماحول کو اور زیادہ اداس بنا جا تیں۔

شیلا کو مرے ہوئے چھ ماہ گزر چکے ہیں۔ سیٹھ جی کی زندگی
کی ساری خوشیاں ختم ہو گئی ہیں۔ اکثر سوتے میں شیلا ان کے سرہانے
آکر کھڑی ہو جاتی ہے۔ سیٹھ جی اسے سینے سے لگانے کے لئے
جھپٹتے ہیں، مگر آنکھ کھل جاتی ہے اور تکیہ آنسوؤں سے تر ہوتا
ہے۔
ان چھہ مہینوں میں سیٹھ جی نے اپنی پیاری بیٹی کے نام پر
تین عالیشان مندر تعمیر کروائے ہیں۔۔۔ اور چوتھا مندر
زیرِ تعمیر ہے۔
لیکن آج بھی ان کی دواؤں میں ملاوٹ ہوتی ہے۔
۔۔۔ آج بھی ان کے کارخانے میں نقلی انجکشن تیار ہوتے ہیں۔۔۔
ہاں ایک فرق ضرور ہے۔ پہلے وہ صرف سیٹھ مانک رام
تھے۔ اب مانک رام ایم پی ہیں اور وزارتِ صحت کے خواب
دیکھ رہے ہیں۔

 
 
 
 

 


Datenschutzerklärung
powered by Beepworld