This writeup of Arif Naqvi was published first in Aalmi Akhbar, London on 16.01.2015  بصد شکریہ عالمی اخبار۔

ہندوستان میں اردو کی موجودہ حالت ۔ ایک مشاہدہ ۔از۔عارف نقوی
 

عارف نقوی۔۔۔۔برلین۔۔۔۔۔جرمنی
 
 
انسانی فطرت ہے کہ ہم اکثرشکایتیں کرتے رہتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے ہیں کہ اگر کوئی ناگوار بات ہو رہی ہے
تواس میں ہماری خود کتنی ذمے داری ہے۔ ہم خود کیا غلطیاں کر رہے ہیں اور کون سے کام ہم نے نہیں کئے ہیں۔ 
مثلاً اردوزبان کو لیجئے۔ ہر شخص کی زبان پر یہی شکوہ ملے گا کہ یہ زبان ختم ہو رہی ہے۔ اسے ختم کیا جا رہا ہے۔ اس کے
ساتھ ناانصافیاں کی جا رہی ہیں۔اردو کے مخالفین اسے مٹانے کی کو ششیں کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اردو زبان و ادب کے
مخالفین، بلکہ میں تو کہوں گا کہ علم و ادب اور تہذیب و تمدن کے تنگ نظر مخالفین اردو جیسی زبان کو مٹانے کی ہر چند کوشش
کرتے رہے ہیں اور کریں گے اور اردو کے شیدائیوں کا فرض ہے کہ اپنی زبان و ادب کے خلاف ہونے والی ہر ناانصافی
کے خلاف آواز اٹھائیں۔ لیکن اس سے زیادہ ان کا فرض یہ ہے کہ پہلے اپنا گھر ٹھیک کریں۔ 
 
ماضی میں ہم سے اردو کوعوام کے بڑے حصّے خصوصاً مزدوروں اور کسانوں سے دور رکھا گیا اور اسے صرف شرفاء کی
زبان بنا کراس کے ساتھ زیادتی کی تھی۔ زیادہ تر ہماری مائیں بہنیں اردو زبان و ادب سے محروم تھیں۔ جس کا خمیازہ ہم
آج بھگت رہے ہیں۔ اردو کے ساتھ سلوک آج ہندوستان اور پاکستان دونوں جگہ اپنے اپنے طریقے سے کس طرح
کیا جا رہاہے یہ ایک لمبی بحث ہو جائے گی۔ مجھے تو اس موقع پر ہندوستان میں اردو کی حالت سے غرض ہے۔ 
 
میں ابھی حال میں شمالی ہندوستان میں ایک مہینہ گزار کر واپس لوٹا ہوں۔ مجھے یہ دیکھ کر افسو س ہوا کہ بہت سے
پڑھے لکھے تعلیم یافتہ مسلم گھرانوں میں اکثر بچّے انگریزی بولنے میں فخر محسوس کرتے ہیں لیکن اردو زبان و ادب کو اہمیت
نہیں دیتے ہیں۔ ان کے گھروں میں انگریزی اخبارات آتے ہیں لیکن اردو اخبارات کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
اور جب ہم غریب مسلم محلّوں کے لوگوں سے اردو کے بارے میں پوچھتے ہیں تو جواب ملتا ہے۔
249249جی ہاں ہمارا بیٹا مولوی صاحب سے عربی پڑھتا ہے۔‘‘ اس میں شک نہیں کہ یہ بات قابل مبارکباد ہے کہ بچّے سپارے
پڑھ رہے ہیں۔ لیکن انھیں اردو کتنی آتی ہے اس کی کسی کو فکر نہیں ہوتی۔حالانکہ ان کا تمام دینی اور تہذیبی اثاثہ اس زبان
میں موجود ہے۔اگر آپ انہیں ان کی زبان سے محروم رکھیں گے تو وہ اپنے دین و تہذیب کو کیسے سمجھیں گے؟
لیکن کیا ہندوستان میں اردو زبان و ادب کی یہ پوری تصویر ہے؟ کیا اردو زبان واقعی فنا ہو رہی ہے؟ امید ہے
کہ ہمارے اردو دانشور ، نقاد اور مورخ کبھی اس بات کا بخوبی جواب دیں گے کہ زبان و ادب کا کب زوال ہوتا ہے؟
کس کو نقصان ہوتا ہے اور اسے زندہ رکھنے اور فروغ دینے کے لئے کیا کرنا ہوتا ہے؟ ظاہر ہے کہ اس کے لئے سنجیدگی
سے مطالع کی ضرورت ہوتی ہے۔میں تو نہ مورخ ہوں نہ لسانیات کا ماہر بس اپنے سرسری مشاہدات کی بنیاد پر کچھ کہہ 
سکتا ہوں۔
مجھے اس بار ہندوستان میں بعض پہلوؤ ں سے اردو کی حالت کو دیکھ کر جتنا افسوس ہوا اس سے زیادہ میرا یہ اعتماد
مضبوط ہوا کہ اردو زبان میں اتنی خوبیاں ہیں کہ اسے کوئی نہیں مٹا سکے گا۔ اس کی شکل میں وقت کے ساتھ کچھ تبدیلیاں 
ہو سکتی ہیں جوایک قدرتی بات ہے اور ہر زبان میں ہوتی ہیں، لیکن اردو زبان و ادب کی کشش، اس کی افادیت اورقوت
میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ اردو زبان کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں ہمارے ماحول کی ساری آوازیں سمٹ آئی ہیں۔
جس طرح سنگیت میں۔ چاہے جھیلوں پر اڑتی ہوئی بتخوں کی قائیں قائیں ہوں یا تیز سنسناتی ہوئی ہوا کی زن زن۔ اردو
میں یہ سب مل جاتی ہیں۔ یہ اور ایسی ہی لاتعداد خوبیاں ہیں جن کی بدولت آج دوسری زبانوں کے شاعر بھی اردو میں
نظمیں اور غزلیں لکھنے لگے ہیں، جن میں سے کچھ کے کلام کو سننے کا مجھے موقعہ ملا ہے۔ ہندی کہانیوں اورفلموں میں ہمیں 
اردو گانے اور مکالمے ملتے ہیں جو اس زبان کی کشش کے غماز ہیں۔ فلمیں عام طور سے منافعوں کے لئے بنائی جاتی ہیں۔
ان کے پروڈیوسر اور مالک جانتے ہیں کہ ان کی فلمیں کیسے گانوں اور مکالموں سے کامیاب ہوں گی۔یہی وجہ ہے کہ 
بالی ووڈ میں بننے والی فیچر فلموں کو آپ ہندی فلمیں کہیں یا کوئی اور نام دیں ان کی زبان اورگیت عام طور سے اردو ہی 
کے ہوتے ہیں۔
اس بار ہندوستان میں ایک مہینہ قیام کے دوران مجھے دو باتوں نے خاص طور سے متاثر کیا۔اکیلے شہر لکھنؤ میں
اردو کے اتنے زیادہ معیاری روزنامے پیدا ہو گئے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ اس سے قبل اردو کے عروج کے دور میں بھی
اتنے روزنامے نہیں تھے۔ دوسری بات یہ کہ حالانکہ محرم کا مہینہ تھا اور جگہ جگہ مجلسیں ہو رہی تھیں لیکن اس کے باوجود ہر دن
اردو نشستون اور جلسوں کے سلسلے قائم رہے۔ لگتا تھا جیسے اردو سرگرمیوں کی فصل آگئی ہو۔ آج تک میں نے کم سے کم لکھنؤ 
میں اتنی مختصر مدت میں اردو کے اتنے جلسے نہیں دیکھے تھے جتنے اس بار۔
میں اس بار ۱۳ نومبر کو ایرو فلوٹ کی اڑان سے ماسکو ہوتا ہوا دہلی پہنچا۔ غالب اکیڈیمی کے سکریٹری ڈاکٹر عقیل
نے نظام الدین میں ہی میرے قیام کا بندوبست کر دیا تھا۔ چنانچہ اسی دن نظام الدین اولیاء اور امیر خسرو کے مزاروں
پر حاضری دینے کے بعد مرزا غالب کے مزار پر حاضری دینا اور غالب ایکیڈیمی کے لوگوں سے ملاقات کا شرف حاصل 
کرنا میرا فرض تھا۔دوسرے دن اپنی ایک ۳۵ برس پرانی دوست عالمی شہرت کی کتھک رقاصہ شوونا نارائن اور ان کے
آسٹرین شوہر رابرٹ کے گھر پر لنچ کے لئے مدعو تھا۔ شوونا نارائن برجو مہاراج کی شاگرد رہ چکی ہیں اوراتنی شائستہ اردو 
بولتی اور اردو کے اشعار سناتی ہیں کہ مل کر دل خوش ہو جاتا ہے۔ لیکن ان کے آسٹرین شوہر بھی لکھنؤ کی تہذیب کے دلدادہ 
نظر آئے۔
۱۵؍ نومبر کو غالب اکیڈیمی کے ہال میں میرے اعزاز میں ایک جلسہ تھا ،جس کی رپورٹ نیوز ایجنسی یو این آئی نے
ریلیز کی ،جسے مختلف اخبارات نے ان الفاط میں شائع کیا:
’’ عارف نقوی دہلی کے لئے نئے نہیں ہیں۔ پچاس سال پہلے دہلی کی ادبی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے
تھے۔ انھوں نے ترقی پسند مصنفین کا جلسہ رام لیلا میدان میں کرایا تھا جس کا آج تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔اب پچاس سال
سے جرمنی میں اردو کی شمع روشن کئے ہوئے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار غالب اکیڈیمی کے سکریٹری ڈاکٹر عقیل احمد نے کل یہاں
منعقد ایک ادبی نشست میں جرمنی سے آئے مشہور ترقی پسند ادیب عارف نقوی کا تعارف کراتے ہوئے کیا۔
عارف نقوی نے اپنی ایک نظم وطن پیش کی اور جرمنی میں اردو کے تعلق سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔
وہاں ہندوستانی کلچر اور ثقافت پر بہت کام ہوا ہے۔ میکس مولر نے سنسکرت کو زندہ کیا۔ گیٹے (گوئتھے) پر فارسی کا بڑا اثر
ہے۔ ان مری شمل نے غالب اور اقبال پر کام کیا۔ ہائڈل برگ میں کرسٹینااردو کے لئے کام کر رہی ہیں۔۔۔کرشن چندر
کے ڈرامے سرائے کے باہر اور کتے کی موت جرمن زبان میں ترجمہ ہو کربراڈکاسٹ ہو چکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میر 
اور غالب اپنے زمانے کے ترقی پسند تھے۔۔۔
 
ڈاکٹر خالد علوی نے اپنی تقریر میں کہا کہ عارف نقوی خاموشی سے اپنا ادبی سفر طے کر رہے ہیں۔۔۔جرمنی میں نصف صدی
ایک ایسے بین الاقوامی صحافی کی یادداشتیں ہیں، جسے اندرا گاندھی، ڈی کے بروا، خواجہ احمد عباس، ملک راج آنند، 
کرشنا مینن، ذاکر حسین،فیض احمد فیض، سردار جعفری، سنیل دت، نرگس، کرشن چندر،سجاد ظہیر سے ملنے کے بے شمار مواقع 
ملے ہیں۔ کتاب میں ان کی غیر رسمی ملاقاتوں کی روئداد ہے۔ اس موقع پر متین امروہوی، نسیم عباسی، شہباز ندیم ضیائی،
نریش ندیم، حبیب سیفی نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔ جلسے کی صدارت مشہور افسانہ نگار انجم عثمانی نے کی۔‘‘
ڈاکٹر خالد علوی ، جو دہلی یونیورسٹی کے ذاکر حسین کالج میں شعبہء اردو کے صدر ہیں، دو بار ہمای دعوت پر برلن
تشریف لا چکے ہیں اور علی سردار جعفری، کرشن چندر اور خواجہ احمد عبّاس پر اپنے مقالوں سے یہاں کے اردو داں حلقوں
کے دل جیت چکے ہیں۔دہلی میں ان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو اردو زبان و ادب کے فروغ کے لئے کوشاں ہیں۔
اس بار بھی خالد علوی، عقیل احمد اور بعض دیگر اردو داں حضرات سے مل کر مجھے خاص خوشی ہوئی۔
 
دہلی سے مثبت تاثرات کے ساتھ میں ۶ا؍نومبر کو شتابدی ٹرین سے لکھنؤ گیا اور اپنی چچازاد بہن کے ساتھ
لکھنؤ کے علاقے علی گنج میں قیام کیا۔ صبیحہ کے گھر پر انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا آتا ہے۔ چنانچہ میں نے پہلا کام
یہ کیا کہ ہاکر سے کہا کہ وہ روزانہ اردو کے تین روزنامے راشٹریہ سہارا، آگ اور اودھ نامہ دے جایا کرے۔
۱۸؍ نومبر کو قیصر باغ کے رائے اماناتھ بلی آڈیٹوریم میں اردو رائٹرس فورم کیطرف سے میری تازہ کتاب ’جرمنی
میں نصف صدی‘ کی رسمِ اجراء کی تقریب منعقد کی گئی ۔ جس میں ڈاکٹر شارب ردولوی اور روزنامہ اودھ نامہ کے سرپرست
سید وقار رضوی خا ص طور سے پیش پیش تھے اور میرے لکھنؤ کے بہت سے پرانے دوست ، ساتھی اور بہت سے نئے مخلص
موجود تھے۔ جیسے سابق وزیرڈاکٹر عمار رضوی، سابق جسٹس حیدر عباس، مشہورافسانہ نگار عابد سہیل،روزنامہ آگ کے مدیر احمد ابراہیم علوی، سابق وائس چانسلر عربی فارسی اردو یونیورسٹی جناب انیس انصاری،سابق مئیر داؤ جی گپتا، صحافی فیاض رفعت، سائنٹسٹ محترمہ ڈاکٹر قمر رحمان اور دیگر افراد۔ان سبھی نے اپنی تقریروں میں میری کتاب جرمنی میں نصف صدی کی تعریف
کی اور اس کی اہمیت پر زور دیا۔خصوصاً محترمہ ڈاکٹر صبیحہ انوراور صحافی فیاض رفعت صاحب نے کتاب پر اپنے خصوصی 
مقالے پیش کئے جب کہ پروفیسر شارب ردولوی نے مختلف پہلوؤں سے کتاب کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اس کی تاریخی 
ادبی اور ثقافتی اہمیت پر زور دیا۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر ہارون نے ادا کئے۔
 
جرمنی میں نصف صدی پر اردو، ہندی اور انگریزی کے مختلف اخبارات نے تبصرے شائع کئے۔ مثلاً ۱۸ نومبر کے 
اودھ نامے میں فیاض رفعت صاحب نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ان کی پیش نظرکتاب ایک تاریخی اور تہذیبی دستاویز 
کادرجہ رکھتی ہے۔عارف صاحب اردو ادب اور صحافت کے ایک پرانے کھلاڑی ہیں۔ لکھنؤ کے ہیں اور لکھنؤ والوں کی 
آنکھیں دیکھے ہوئے ہیں۔ ترقی پسند تحریک کے قافلہ سالاروں کے ساتھ نشست و برخاست کا شرف بھی آپ کو حاصل ہے۔۔۔‘‘ ڈاکٹر صبیحہ انور نے اپنے مضمون میں، جو اسی دن شائع ہوا لکھا : ’’۔۔۔اس میں جو دل پر بیتی ہے اس کا بیان ہے۔
 
اس میں انسان دوستی ہے، جنگ سے نفرت ہے۔ غریبوں اور لاچاروں کی مدد کرنے کے شوق کی بے چینی ہے۔پھولوں،
محبتوں اور حسین ماحول کا ذکر ہے۔ وطن دوستی اور امن دوستی کے ترانے ہیں۔۔۔‘‘
جبکہ مشہور افسانہ نگار عابد سہیل نے اپنے ایک طویل تبصرے میں اور باتوں کے ساتھ لکھا:
’’ میرے خیال میں یہ ان کی سب سے اچھی اور سب سے اہم کتاب ہے جو اپنے دامن کی وسعت اور انکشافات 
کے سبب بار بار چھپے گی۔ اس کتاب میں جرمنی اور اس کے آس پاس کے ممالک کی سیاست اور ثقافت کے علاوہ صحافت ہے،
کیرم بورڈ کی بساط کو اور بسیط بنانے کی کوششیں ہیں، ادب ہے اور ’’اگر زہرہ جبینوں کے درمیاں گزرے‘‘ کی کیفیات ہیں 
اور اس سب کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ ان میں سے ایک چیز تو ایسی ہے جو دامن میں ہمارے ملک کی پرانی، نئی اور اگلی
نسلوں کے لئے بہت سے سبق رکھتی ہے۔‘‘
۱۹؍ نومبر کو شعاع فاطمہ گرلس کالج میں ایک مخصوص شعری تقریب تھی جس میں شہر کے نای شعراء نے اسٹوڈنٹس
اور ٹیچروں کے سامنے کلام پیش کئے۔ ان میں سے ہندی کے نامی شاعر پروفیسر ڈکشٹ، منیش شکلا، وندنا مسرا، سرویندر وکرم،
اور اردو کے ڈاکٹر ہارون رشید،معراج ساحل وغیرہ کے نام مجھے یاد ہیں۔ منیش شکلا کی اردو غزل کو بھی کافی داد ملی۔ میں نے
اس موقع پر اپنی نظم ایک لڑکی اور بچّوں کے لئے نظم ایک چڑیا پیش کی۔
دوسرے دن کی تقریب میرے خیال سے اور بھی زیادہ دلچسپ تھی۔ اس دن بھی ہم سب شعاع گرلس کالج میں
مدعو تھے، لیکن اپنا کلام سنانے کے لئے نہیں بلکہ بچّوں کو سننے کے لئے۔ مختلف عمر اور کلاسوں کے بچّوں نے ہمارے اور
ٹیچروں کے سامنے نظمیں، کہانیاں، لطیفے وغیرہ مائک پر پیش کئے اور دادیں حاصل کیں۔ بعد میں سینئیر شاعروں اور
ادیبوں کے ہاتھوں سے انھیں انعامات پیش کئے گئے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس وقت ان کی زبان سے نظمیں اور کہانیاں سن کر 
نمبردیتے ہوئے جی چاہتا تھاکہ سب کو دس میں سے دس نمبر دے دوں۔ پہلی بار یہ احساس ہو رہا تھا کہ ممتحن بننا کتنا مشکل
ہوتا ہے۔
۲۱؍ نومبر کو قیصر باغ میں ہی پروفیسر شمیم نکہت کی کتاب پریم چند کے ناولوں میں عورت کا مقام کے دوسرے
ایڈیشن کی رسم اجراء تھی۔اس تقریب میں بھی لکھنؤ کے بہت سے اردو ادیب اور دانشور شریک تھے، جن میں احمد ابراہیم
علوی، ڈاکٹر صبیحہ انور، پروفیسر رمیش دکشت، پروفیسر روپ ریکھا ورما، عارف نقوی ، صابرہ حبیب، فیاض رفعت، 
ڈاکٹر ریشما پروین، شکیل صدیقی،عصمت ملیح آبادی، عائشہ صدیقی، وسیم بیگم ، ناظم ڈاکٹر ہارون رشید اور
پروگرام کے کنوینر سید وقار رضوی نے شمیم نکہت کی ادبی خدمات اور کاوشوں کو سراہا۔    
 
 
 
 
 
 
 
۲۲؍ نومبر کو شعاع کالج کا سب سے بڑا جلسہ تھا۔ کالج کا میدان جو کہ شامیانے سے گھیر دیا گیا تھا، بچوں
کے بنائے ہوئے آرٹس اور کرافٹ اورسائنسی ماڈلوں سے سجا ہوا تھا۔ میں اس میں مہمان اعزای کی حیثیت سے
مدعو تھا ۔ لیکن مجھے اس بات کی خوشی تھی کہ اس تقریب میں میرے ایک پرانے دوست سبط رضی جو میرے ، شارب
ردولوی اورشمیم نکہت کے ساتھ لکھنؤ یونیورسٹی میں پڑھ چکے تھے اور بعد میں اتر پردیش کے وزیر اور چھتیس گڑھ کے 
گورنر رہ چکے تھے چیف گیسٹ کی حیثیت سے مدعو تھے اور مجھے کافی عرصے کے بعد ان سے ملنے اور پرانی یادوں کو 
تازہ کرنے کا موقع ملاتھا۔بہر حال ان کی آمد نے جلسے کو اور زیادہ شاندار بنا دیا ۔بعد میں بچوں نے سبط رضی اور
میری تقریروں کو کہاں تک غور سے سنا اور سمجھا اس کے بارے میں تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ہاں جب وہ ہم لوگوں کے
ہاتھوں سے اپنے ماڈلس کے لئے انعامات لے رہے تھے تو ان کی خوشی دیکھنے کے قابل تھی۔
شعاع فاطمہ گرلس انٹر کالج میرے پرانے دوستوں شمیم نکہت اور شارب ردولوی نے ، جن کا اصلی نام سید مسیب 
عبّاس ہے اپنی بیٹی شعاع فاطمہ کی یاد میں قائم کیا تھا۔ شارب ایک مستند اور مشہور اردو نقاد ہیں اور شمیم ایک اچھی افسانہ
نگار ۔ دونوں لکھنؤ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد دہلی میں پروفیسر رہے (شارب جے این یو میں اور شمیم
دہلی یونیورسٹی میں)۔ میں اس دوران برلن آگیا تھا۔ لیکن ہماری پرانی دوستی اورترقی پسند وجمہوریت پسنداور سیکولر
خیالات کی ڈور قائم رہی۔ پھر جب ان کی بیٹی بیس سال کی عمر میں اس جہان کو چھوڑ کر گئی اور اس کی یاد میں شارب اور شمیم 
نے چند غریب بچّوں کے لئے ایک چھوٹے سے اسکول کی بنیاد رکھی ، تو میں ان پہلے لوگوں میں تھا جنھوں نے تعاون کا ہاتھ
 
بڑھایا اوریہ عہد کیا کہ تا حیات اس نیک کام میں پیچھے نہیں ہٹوں گا۔چنانچہ تب سے ہر سال لکھنؤ جانے کی ایک وجہ یہ بھی
ہے۔ وہاں کے بچّو ں سے مجھے اس قدر پیار اور روحانی قوت حاصل ہوتی ہے کہ لگتا ہے جیسے کسی پرانی گاڑی کو پٹرول مل
گیا ہے۔
اب یہ کالج جو کبھی چند غریب پرائمری بچوں کو لے کر شروع کیا گیا تھا انٹر میڈیٹ کالج ہو گیا ہے، جہاں
ایک ہزار کے قریب بچّے پڑھتے ہیں اور ہائی اسکول اور انٹرمیڈیٹ میں فرسٹ ڈویزن کے ساتھ سو فیصدی کامیابی
حاصل کرتے ہیں۔ شعاع فاتمہ کے نام سے جو شمع روشن کی گئی تھی وہ نہ صرف سائنس، آرٹس اور میتھمیٹک کی روشنی 
پھیلا رہی ہے بلکہ اردو زبان و ادب کی شعاعیں بھی شہر میں بکھیر رہی ہے۔
 
۲۳؍ نومبر کو ڈاکٹر عمار رضوی کے گھر پر دعوت میں شرکت کرنے کے بعد میں وہیں سے اسٹیشن کی طرف روانہ
ہو گیا اور۲۴ نومبر کو صبح مرادآباد پہنچا، جہاں کیرم کے آل انڈیا سینئیر لیگ میچ ہو رہے تھے۔وہاں سارے ہندوستان سے
آئے ہوئے کیرم کے کھلاڑیوں اورشیدائیوں کے ساتھ چند گھنٹے گزارنے کے بعد علی گڑھ کے لئے روانہ ہو گیا ، جہاں مجھے
مسلم یونیورسٹی کے شعبہء اردوکی طرف سے ۲۵؍ نومبر کو ریسرچ اسکالروں و اساتذہ کے جلسے میں بولنے کی دعوت دی گئی تھی۔
علیگڑھ یونیورسٹی کے دیدار میں نے مدت سے نہیں کئے تھے۔ حالانکہ اس کے بارے میں اخبارات میں برابر
پڑھتا رہتا تھا۔ اس یونیورسٹی کی تا ریخی اہمیت، اس کے عظیم رول، ملک و قوم کی ترقی میں اہم خدمات اور اردو زبان و
ادب کے فروغ کے لئے بے مثال خدمات کے بارے میں سبھی جانتے ہیں۔ لیکن اب وہاں کیا ہو رہا ہے؟ اردو زبان و 
ادب کے لئے وہاں کے لوگ کیا کر رہے ہیں اس کا علم مجھے بہت کم تھا۔ چنانچہ جب مجھے وہاں سے دعوت نامہ ملا تو ایسا
لگا جیسے میری دیرینہ آرزو پوری ہو گئی ہے۔ پھر وہاں پہنچنے کے بعد ریسرچ اسکالروں اور استادوں مثلاً پروفیسر صغیر افراہیم، پروفیسر طارق چھتاری، پروفیسر سید محمد امین اور دیگر لوگوں نے جس ملنساری اور گرم جوشی کیساتھ استقبال کیا اس نےمیرے دل میں ان کی عزت اور بڑھا دی۔اس جلسے کی خبریں بھی مختلف اخبارات نے شائع کیں اور روئداد کے ویڈیو کویو ٹیوب پر بھی دکھایا گیا ہے۔روزنامہ آگ نے جلسے کی روئداد کو دو کالمی سرخی کے ساتھ ان الفاظ میں شائع کیا 
 
 اردو خالص ہندوستانی زبان ہے جس کی خوشبو سے سارا جہان معطر ہے۔ ایسی زبان کبھی مر نہیں سکتی۔ ان 
خیالات کا اظہار عارف نقوی (جرمنی) نے اے ایم یو شعبہء اردو کی ریسرچ ایسو سی ایشن کے زیر اہتمام
ادبی تقریب میں بطور مہمان خصوصی کیا۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ اردو ختم ہونے کی بات کرتے ہیں دراصل وہ اردو 
دشمن ہیں۔ ایسوسی ایشن کے سرپرست معروف نقاد پروفیسر صغیر افراہیم نے عارف نقوی کو اردو کا مرد مجاہد بتاتے
ہوئے کہا کہ وہ جرمنی جیسی سنگلاخ زمین میں اردو کا پودا لگائے ہوئے ہیں۔یہ بڑی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ
عارف نقوی جس قدر فعال صحافی رہے اس سے زیادہ تخلیق پر توجہ مرکوز کی۔ان کی موجودگی سے یہ احساس بڑھا ہے 
کہ اردو کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے۔پروفیسر صغیر افراہیم نے کہا کہ ڈرامہ نگاری، افسانہ اور شاعری پر ان کی دس سے 
زائد کتابیں اس بات کی غماز ہیں کہ وہ بہترین ادیب ہیں۔ پروفیسر فرقان سنبھلی نے عارف نقوی کا تعارف پیش
کرتے ہوئے کہا کہ وہ ترقی پسند مصنفین کے سکریٹری رہنے کے علاوہ ریڈیو برلن جرمنی میں ہندوستانی زبان 
کے ایڈیٹر رہے اور ان کی نظموں اور کہانیوں کا جرمنی میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ اس موقع پر محمد عالم اورشہزاد انجم نے
شعری تخلیقات پیش کیں، زبیر صدیقی نے انشائیہ، میاں آزاد پیش کیا۔ جبکہ شہناز خاتون نے افسانہ ’شگافوں 
کے چراغ‘ پیش کیا۔ سفینہ بیگم نے’ بساط‘، عبدالرحمٰن نے’ انتقام‘ اور فرقان سنبھلی نے افسانہ’ وراثت‘ پیش کئے۔ 
مہمان عارف نقوی نے اپنی نظم وطن پیش کی جو کہ وطن کی محبت سے سرشار اور منفرد نظم تھی۔ آغاز ڈاکٹر عرفان ندوی 
کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ صدارتی خطبہ میں پروفیسر چھتاری نے کہا کہ ریسرچ ایسو سی ایشن کے جلسے میں 
پڑھی گئی سبھی تخلیقات بے حد معیاری تھیں۔ انھوں نے اردو والوں سے اپیل کی کہ وہ مایوسی چھوڑ کر آگے بڑھیں
اور جس طرح علی گڑھ کی شناخت اردو اور اردو والوں سے تھی وہ دوبارہ قائم کریں۔ شعبہ کے صدر پروفیسر سید محمد امین
نے کہا کہ عارف نقوی ۸۰ برس کی عمر میں بھی دل و جان سے اردو کی خدمت کر رہے ہیں۔ یہ بڑی اہم بات ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیشہ عارفوں کے سر قلم ہوتے رہے ہیں۔ وہ سچ بولتے ہیں۔ انہوں نے ریسرچ ایسوسی ایشن کی
سرگرمیوں کو سراہا۔ اس موقع پر سید محمد ہاشم، پروفیسر خورشید، پروفیسر مولا بخش، ڈاکٹر سیما صغیر، ڈاکٹر سنجیدہ خاتون، 
خورشید شاہد، محمد اکرم، عبدالباسط، شازیہ انیس، تزئین فاطمہ، منور سلطانہ، بکر عالم صدیقی، ڈاکٹر شہاب الدین وغیرہ 
موجود تھے۔ نظامت سکریٹری انجمن سلمان بلرامپوری نے کی۔‘‘
علی گڑھ سے میں بس کے ذریعے اسی رات دہلی پہنچا اور دریا گنج میں توحید نامی مہمان خانے میں رات گزاری۔ 
۲۷؍ نومبر کو مجھے انڈیگوکی فلائٹ سے لکھنؤ واپس لوٹنا تھا، جہاں میں لکھنؤ فیسٹیول کے دوران منعقد کئے جانیوالے ادبی کارنیوال
میں مدعو تھا جس میں مہمان خاص کی حیثیت سے ترقی پسند ادب پر ہو نے والے ایک مباحثے میں حصّہ لینا تھا جس کے لئے منتظمین نے مجھے دہلی سے لکھنؤ تک کا ہوائی جہاز کا ٹکٹ بھیج دیا تھا۔ دہلی میں قیام کے دوران میں نے خاص طور سے اپنے
پرانے ملاقاتی اشونی کمار جی سے ان کے گھر پر ملاقات کی۔ ان کی عمر ۹۴ برس کی ہو گئی ہے اور اب وہ بستر سے نہیں اٹھ پاتے
ہیں۔ وہ مجھے اپنا دوست اور چھوٹا بھائی سمجھتے ہیں۔ ہماری دوستی تقریباً ۳۵ برس قبل اس وقت ہوئی تھی جب میں صحافی اور 
وہ انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کے نائب صدر تھے اور کیرم کے فروغ میں میری مدد کر رہے تھے۔ وہ کسی زمانے میں ہاکی کے
بہترین کھلاڑی اور ایک بڑے افسر رہے ہیں۔ لیکن اب مجھے ان کے یہ الفاظ سن کر افسوس ہوا کہ ’’وقت کا انتظار کر رہا ہوں
۔۔۔‘‘ اس حالت میں بھی انھوں نے مجھے اپنے بہت سے اردو اشعار سنائے۔ شاید ہمارے بہت سے ادیبوں اور نقادوں
کو یہ نہیں معلوم ہے کہ یہ چوٹی کا افسر جس کا تعلق کبھی لا ہور سے رہا ہے اردو زبان میں شاعری کرتا تھا اور اردو زبان و ادب
کا شیدا ئی ہے۔
دہلی سے میں ۲۷؍ نومبر کو انڈیگو کی فلائٹ سے لکھنؤ پہنچا۔۲۸؍ نومبر کو لٹریری کارنیوال کے منتظمین کی کار مجھے 
لینے کے لئے گھر پر آ گئی۔ میرے دوست شارب ردولوی بھی ساتھ تھے۔ سنگیت ناٹک اکیڈیمی کے ہال میں جہاں یہ جلسے 
ہو رہے تھے ہماراگرمجوشی سے استقبال کیا گیا ۔ ہمارے اور بھی بہت سے پرانے دوست اور ملاقاتی وہاں موجود تھے۔
لٹریری کارنیوال کے زیادہ تر پروگرام لکھنؤ کی تہذیب اور اردو سے متعلق تھے۔جو تین دن تک صبح سے شام تک چلتے رہے جن میں شرکت کے لئے ہزاروں لوگ موجود رہتے تھے۔
ترقی پسند ادب پر بحث کے پینل میں میرے ساتھ جناب جاوید اختر، پروفیسر شارب ردولوی، محترمہ رخشندہ جلیل،
محترمہ نور ظہیر اور پروفیسرعلی فاطمی شریک تھے۔ ہرشخص اس بات پر متفق تھا کہ ترقی پسند ادب کی آج بھی ضرورت ہے۔
اسی دن وہاں پر اسرار الحق مجاز پر بھی ایک پینل میں مباحثہ ہوا جس میں جاوید اختر، شارب ردولوی، مجاز کی
بھتیجی زرینہ بھٹی اور علی احمد فاطمی وغیرہ نے اپنے خیالات اور تجربات کا اظہار کیا۔
دوسرے دن دیگر باتوں کے ساتھ علی سردار جعفری پر ایک پینل میں زور دار بحث ہوئی جس میں میرے ساتھ
پروفیسر ڈاکٹر قمر رحمٰن، پروفیسر انیس اشفاق اورجناب انیس انصاری نے حصہ لیا۔ اس پینل میں نظامتکے فرائض انجام
دیتے ہوئے انیس انصاری نے مجھ سے شروع ہی میں ترقی پسند ادب کے بارے میں کچھ سوالات کر لئے اور پھر بحث 
سردار جعفری کی ترقی پسندی پر مرکوز ہو گئی۔ ان پروگراموں کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ ان میں شرکت کے لئے ممبئی
سے بہت سے فلمی فنکار اور ملک کے دور دراز حصوں کے فنکاروں کو مدعو کیا گیا تھا۔
ابھی ان پروگراموں کا سلسلہ ختم ہونے بھی نہ پایا تھا کہ لوگوں کیگھروں پر دعوتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔جس
کی پہل محترمہ قمر رحمان نے کی اور لاتعداد اہم لوگوں کو اپنے گھر پر عشائیہ کے لئے مدعو کیا، جس میں زیادہ تر ادبی کارنیوال
کے منتظمین اور شہر کے اہم لوگ شریک ہوئے۔ وہاں بھی لکھنؤ کے حوالے سے ہر ایک خود کو اردو کا شیدا ثابت کرنے کی کوشش
کر رہا تھا۔ دوسرے دن جیسا کہ میں ذکر کر چکا ہوں۲۳ ؍ نومبر کوسابق وزیر ڈاکٹرعمّار رضوی کے گھر کے لان پر لوگوں کی
زوردار دعوت تھی۔ وہاں بھی اردو کا ماحول چھایا رہا۔ حالانکہ اسی رات مجھے ٹرین سے مرادآباد جانا تھا۔
لٹریری کار نیوال کے دوران ہی لکھنؤ کے مشہور شاعر انیس انصاری نے جو اردو ، عربی ، فارسی یونیورسٹی کے بانی
وائس چانسلر رہ چکے ہیں اپنے گھر پرعشائیہ کی دعوت دی تھی۔ وہاں بھی ممبئی سے آئے ہوئے ادیب جاوید اختر، اداکار
اوم پوری وغیرہ اورلاتعداد دوستوں اور ملاقاتیوں کی محفل تھی جو بعد میں شعر و شاعری میں تبدیل ہو گئی ۔
دوسرے دن دوپہر کو لکھنؤ کی ایک اردوشاعرہ جیوتی سنہا اور ان کے شوہر نکل سنہا نے ہمیں کھانے پر مدعو کیا تھا۔
جہاں لٹریری کارنیوال میں شرکت کرنے والے بہت سے ادیب ، فنکار اور معروف ہستیاں موجود تھیں۔ ظاہر ہے کہ 
ان دونوں نے ضیافت کا بہترین بندوبست کیا تھا۔ لیکن پہلے ہمیں جیوتی جی کی غزلیں اور نظمیں سننا پڑیں۔ بعد میں
انھیں نے نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے شعری نشست کا آغاز کیا اور ہمیں بھی اپنی چیزیں سنانے کا موقع ملا۔
لٹریری کارنیوال کا زور ختم ہونے کے بعد ایک دن ڈاکٹر عمّار رضوی نے مجھے اور شارب کو اپنے قصبے محموداآباد میں
اپنے سائنس انسٹی ٹیوٹ میں چلنے کی دعوت دی تھی اورٹھیک دس بجے انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ہمارے ایک ملاقاتی عرفان احمدکوہمیں لینے کے لئے گھر پربھیج دیا۔ 
عمّار ہماری یونیورسٹی کے پرانے ملاقاتی ہیں ۔ ہم ان سے انکار بھی نہیں کر سکتے تھے۔تقریباً پون گھنٹے کے سفر کے
بعد جب ہم محمودآباد پہنچے تو وہاں پر پروفیسر ڈکشٹ ، انیس انصاری اور بہت سے دیگر لوگ پہلے سے موجود تھے۔عمّار کے 
قائم کئے ہوئے انسٹی ٹیوٹ کی عمارت کو دیکھ کر ہماری آنکھیں دنگ تھیں۔ ہمیں بتا یا گیا کہ اس کا نام مولانا آزاد انسٹی ٹیوٹ 
ہے جس میں ساڑھے چار ہزار سائنس کے طلباء پڑھتے ہیں۔ اب اسے یونیورسٹی بنانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر
عمّار رضوی نے ہمیں عمارت کے مختلف حصے اور وہ آراضیاں دکھائیں جن پر تعمیری کام ہو رہے ہیں۔ بعد میں وہ ہمیں
ایک بڑے ہال میں لے گئے جہاں سیکڑوں لڑکے لڑکیاں پہلے سے ہمارا انتظار کر رہے تھے اور مولانا آزاد کے بارے
میں ہمارے خیالات اور نظمیں و غزلیں سننے کو بے تاب تھے۔ ہمیں اردو زبان و ادب میں ان کی دلچسپی کو دیکھ کر 
مسرت ہو رہی تھی۔
۷؍ دسمبر کوشہر کے مرکز میں امین آباد کے پاس مظہر کمپلیکس میں ڈے میٹ نامی خواتین کی تنظیم کی طرف 
سے ایک جلسہ کیا گیا جس میں میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو تھا۔اس سینٹر میں غریب مسلمان عورتوں کو سلائی
کڑھائی ، بنائی، فیشن ڈیزائننگ، مہندی، کھانا پکاناوغیرہ کام مفت سکھائے جاتے ہیں تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکیں۔
اس دن وہاں پر لڑکیوں کو انعامات دئے جا رہے تھے۔جلسے کا آغاز تلاوت کلام پاک اور نعتوں سے ہوا۔ اس کے بعد
تقریروں کا مختصر سلسلہ شروع ہوا۔مجھے ان کے جلسے میں جا کر اور ان کے جذبات اور لگن کو دیکھ کر جتنی خوشی ہوئی اتنی ہی 
اس بات سے تکلیف بھی کی ایک لڑکی نعت کو ہندی میں لکھ کر پڑھ رہی تھی اور اسے تلفظ میں مشکل ہو رہی تھی۔ چنانچہ
جب مجھ سے بو لنے کے لئے کہا گیا تو میں یہ اپیل کئے بغیر نہ رہ سکا کہ آپ اردو زبان کو سیکھنا مت بند کیجئے۔ آپ کا سارا 
دینی اور تہذیبی اثاثہ اردو زبان میں ہے۔
۱۰ ؍ دسمبر کو عالمی یوم حقوق انسانی کے موقع پر لکھنؤ کے رائے امانت آڈی ٹوریم میں یوم امام حسین منایا گیا۔
جس میں اتر پردیش کے گورنر کو خاص طور سے مدعو کیا گیا تھا۔ اس موقع پر شہر کے چند معزز لوگوں کو جن کا تعلق 
میڈیسین، سائنس۔ ایجوکیشن اور ادب سے ہے گورنر کے ہاتھوں ’وقار لکھنؤ ‘کے ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا ، جن میں
میں بھی ادیب کی حیثیت سے شامل تھا۔ دیگر لوگوں میں جنھیں ایوارڈ دئے گئے میں پدم شری کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر منسور 
حسن ، ایجو کیشنسٹ پروفیسر شمیم نکہت اور محترمہ صابرہ حبیب سے پہلے سے واقف تھا۔
جلسے میں گورنر جناب رام نائک ، عارف محمد خاں ایم پی اور اچاریہ شری پرمود کرشنم نے تقریریں کیں۔ خصوصاً
اچاریہ پرمود کرشنم کی تقریر کو سن کر ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی بڑا اردو داں بول رہا ہو۔ ان کی تقریر امام حسین کے کردار اور
قربانیوں کی تعریف اور اسلام کی خوبیوں سے پر تھی اور فرقہ پرستوں اور نفرت پھیلانے والوں کے لئے ایک چیلنج تھی۔
وہ اپنی تقریر کے دوران بار بار اردو اشعار کے حوالے دے رہے تھے اور جلسے میں موجود تمام ہندو مسلمان جھوم
رہے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ اردو زبان و ادب میں کتنی غضب کی کشش ہے۔
دوسرے دن دوپہر کو لکنؤ کے مرکز امین آباد میں جوہر فاؤنڈیشن کی طرف سے مولانا محمد علی جوہر کی سالگرہ
کی تقریب تھی ، جس میں میں اور شارب ردولوی بھی خاص طور سے مدعو تھے۔ وہاں بھی تقریروں اور شعر و شاعری کا 
دور چلا۔
اسی دن ۱۱؍ دسمبر کو میں لکھنؤ میں اپنے رشتے داروں اور دوستوں کو خد حافظ کہہ کر رات کی ٹرین سے دہلی
کے لئے رونہ ہو گیا، جہاں مجھے ۱۲؍ تا ۱۴؍ دسمبر اردو اکیڈیمی دہلی کے سیمینار میں شرکت کرنا تھی جو کرشن چندر
اور خواجہ احمد عبّاس کی صد سالہ سالگرہ کے سلسلے میں ان دونوں ادیبوں پر ہونے جا رہا تھا۔
صبح گیسٹ ہاؤس میں ڈاکٹر خالد علوی آگئے اور پھر مجھے اپنے گھر لے گئے۔ وہاں سے کھانا کھانے کے بعد 
ہم دونوں خالد علوی کی کار میں اردو اکیڈیمی کی طرف روانہ ہو گئے۔ جہاں بعد نماز جمعہ افتتاحی پروگرام شروع ہونے 
والا تھا۔ اردو اکیڈیمی کے کمپاؤنڈ پر ہی لوگ ہمارا انتظار کر رہے۔ حالانکہ ہمیں وہاں پہنچنے میں کچھ دیر ہو گئی تھی لیکن منتظمیں
نے جلسہ شروع نہیں کیا تھا۔وہاں پر ملک کے مختلف حصّوں سے ادیب اوردانشور آئے تھے۔ مجھ سے بھی کرشن چندر اور
خواجہ احمد عبّاس کے بارے میں بولنے کے لئے کہا گیا۔ اس موقع پر میں نے حاضرین کو بتایا کہ ہم اس سال پہلی جون کو
اردو انجمن برلن کی طرف سے کرشن چندر ، خواجہ احمد عبّاس اور احسان دانش کی صد سالہ سالگرہ اپنے جرمن دوستوں کے
ساتھ مل کر منا چکے ہیں۔اس کے بعد میں نے کرشن چندر اور عباس کے بارے میں اپنے ذاتی تجربات بیان کرتے 
ہوئے ان کی ادبی عظمت پر بھی کچھ روشنی ڈالی۔ لیکن سب سے زیادہ دلچسپی مجھے دوسروں کے مقالے سننے میں تھی، جو
اتنے معلوماتی اور پر مغز تھے کہ جی چاہتا تھا فوراً ٹیپ کر لوں۔
دوسرے دن بھی میں نے سیمینار میں شرکت کی اور لوگوں کے مقالے غور سے سنے۔ اسی رات کو مجھے ایک بار
پھر لکھنؤ جانا پڑا کیونکہ میری چچازاد بہن صبیحہ علیل تھی اور اس کے دونوں بیٹے صلاح الدین اور سیف الدین اپنے بیوی
بچوں کے ساتھ کویت اور مسقط سے آئے تھے۔ لیکن پھر اسی رات کو مجھے دہلی واپس لوٹنا تھا، کیونکہ دوسرے دن ۱۵؍
دسمبر کی رات کو مجھے ہوئی اڈّے پر پہنچنا اور پھر ساڑھے بارہ بجے ایرو فلوٹ کی اڑان سے برلن واپس لوٹنا تھا۔ دن بھر
ڈاکٹر خالد اشرف اور ڈاکٹر خالد علوی کے ساتھ وقت گزارا ۔مختلف موضوعات پر ان کی رائے سے استفادہ کیا۔میرے
پاس اردو کتابوں کا انبار ہو گیا تھا جو بہت سے دوستوں اور خیر خواہوں نے محبت سے دی تھیں۔ انھیں برلن لانا آسان نہیں 
تھا۔ لیکن خالد علوی کو شاید ہر مشکل کا حل معلوم ہے۔ اس لئے یہ پریشانی بھی دور ہو گئی۔ شام کو خالد علوی، خالد اشرف
اور عرشیہ پبلیکیشنز کے مالک اظہار ندیم صاحب کے ساتھ ایک ریستوراں میں کھانا کھانے اور کچھ دیر گپ شپ کرنے 
کے بعد ہوائی اڈّے کی طرف روانہ ہو گیا۔یہ سوچتا ہوا کہ اس بار ہندوستان کا سفر ایک ہنگامی لیکن انرجی سے بھر پور سفر تھا۔ 
اس مختصر سی مدت میں اردو کے جتنے جلسوں میں شرکت کی اتنے جلسوں میں پہلے کبھی نہیں کی تھی۔ حالانکہ ان دنوں لکھنؤ 
اور دہلی میں نہ جانے کتنے اور اردو کے ایسے جلسے اور مشاعرے ہوتے رہے جن میں شرکت لے لئے میں وقت نہیں نکال 
سکا تھا۔ پھر کون کہہ سکتا ہے کہ اردو ہندوستان میں ختم ہو گئی ہے۔اس زبان اور ادب پر جو پردے ڈال دئے گئے ہیں ان پر
آہ و فغاں کی نہیں ان کو اٹھانے کی ضرورت ہے۔ہاں یہ بھی ضروری ہے کہ اردو کے یہ جلسے صرف پڑھے لکھے لوگوں ہی تک
شان و شوکت کے ساتھ محدود نہ رکھے جائیں بلکہ انھیں ان غریب علاقوں میں بھی لے جایا جائے جہاں لوگوں کو اردو کی
زیادہ ضرورت ہے ۔ اردو ادیب اور پروفیسر اور اردو کے نام پر خود کو تہذیب یافتہ سمجھنے والے لوگ اپنے دائرہ سے باہر نکل 
کر مزدوروں ،کسانوں ، غریب دُکانداروں اور بے روزگار لوگوں کے پاس جائیں ان کی ضروریات اور ان کے مسائل 
پر قلم اٹھائیں اور ان کے بیوی بچّوں کو اردو پڑھانے اور ان میں اردو کا شوق جگانے کی کوشش کریں۔ تبھی ہم کہہ سکیں گے
کہ اردو کا مستقبل روشن ہے اردو زبان وادب کو کوئی نہیں مٹا پائے گا۔ یہ زبان پھلے پھولے گی اور سب فرقوں کے بیچ اتحاد، 
بھائی چارے، جمہوریت، سیکولرازم، شرافت اور انسانیت کو فروغ دے گی اور قوموں کے بیچ دوستی اور امنِ عالم کو پائدار
بنائے گی۔ 

 

 

 

 

 

 

Naushad Ali - Mughal-e Azam of Film Music

by 

Arif Naqvi

(With thanks to aalmiakhbar.com)                                                                                 

 

              نوشاد علی           ۔۔سنگیت کا مغلِ اعظم

                                      ۔از عارف نقوی۔برلن                     

 
 
تان سین کا نام اگر آج بھی سنگیت کے آسمان پر چمک رہا ہے توبر صغیر کی فلمی دنیا کے آسمان پر آج بھی ایک ایساستارہ روشن ہے جس کی چمک سے ہمارے دل منور ہیں اورمیٹھی کرنیں دلوں میں محبت اور ولولے پیدا کرتی ہیں۔ یہ ستارہ ہے نوشادؔ علی۔جس کی دھنوںپر گائے ہوئے گیت مدتوں لوگوں کی زبانوں پر رہے اور آج بھی دلوں میں رس گھولتے ہیں۔


نوشاد نے 66 فلموں میںمیوزک دیا تھا۔ ان میں سے 34فلمیں نہایت ہی ہِٹ ہوئیں۔ یوں سمجھئے کہ 23 فلموںنے سِلور جبلی منائی (یعنی ایک سنیما گھر میں 25 ہفتے چلیں)۔ 8 فلموں نے گولڈن جبلی منائی ( 50 ہفتے چلیں) ۔
ان میں شامل ہیں: میلہ، انداز، دیدار، آن، مَدر اِنڈیا، گنگا جمنا، رام اور شیام اور پاکیزہ۔ 3 فلموں رتن، بیجو باورا اور مغلِ اعظم نے جن کے لئے نوشاد نے سنگیت دیا اور گانوں کی دھنیں بنائیںڈائمنڈ جوبلی کی۔

لکھنوی تہذیب کاچراغ

نوشاد کا تعلق گومتی دریا کے کنارے بسے ہوئے شہر لکھنؤ سے تھا جو اپنی اودھ کی گنگا جمنی مشترکہ تہذیب و تمدن اور روایتوں کے لئے مشہور تھا اور کلاسیکی موسیقی ، کتھک رقص اور اردو زبان و ادب کا مرکز تھا،جسکی جھلک ان کی ساری زندگی اور فن میں ملتی ہے۔ یہ وہی لکھنؤ ہے جہاں اودھ کے تاجدارنواب واجد علی شاہ نے ، جنھیں 1857ء کی جنگ آزادی سے قبل انگریزوں نے معزول کر دیا تھا سنگیت اور رقص کی سرپرستی کی تھی اور خود ڈرامہ لکھا تھا ، جو بعض لوگوں کے
خیال میں ہندوستان کا پہلا اوپیرا تھا۔

اسی شہر لکھنؤ میں عدالت کے ایک منشی جناب واحد علی کے گھر میں25 دسمبر 1919ء کو ایک ستارہ روشن ہوا جس کا نام نوشاد علی رکھا گیا۔ آٹھ برس کی عمر سے ہی اس بچہّ کو سنگیت سے والہانہ محبت ہو گئی اور یہ محبت اتنی بڑھی کہ وہ اپنی اسکولی پڑھائی کونظرانداز کر کے گانے بجانے میںوقت صرف کرنے ، سنگیت کی نشستوں میں شرکت کرنے اور سنیما گھر کے چکر لگانے لگا۔ جسکی اس کے گھر والوں نے سخت مخالفت کی ۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اپنا وقت ضائع کر رہا ہے۔ نوشاد نے استاد غربت علی، استاد یوسف علی اور استاد ببن صاحب جیسے مو سیقی کے استادوںسے کلاسیکی سنگیت سیکھا اور باجوں کی ایک دُکان میں ہارمونیم کی مرمت کا کام کیا اور ایک سنیما گھر میں بغیر آواز والی فلموں کے لئے ہارمونیم بجایا۔ غالباً یہ بات سب لوگ جانتے ہیں کہ ان دنوں ہندوستان میں بغیر آواز والی فلمیں ہی دکھائی جاتی تھیں اور سنیما گھر کے مالکان لوگوں کی دلچسپی کے لئے فلم شروع ہونے سے قبل اپنے آرکسٹراسے پروگرام پیش کرتے تھے۔

پھر ایک دن 1937ء میں نوشاد لکھنؤ کو خدا حافظ کہہ کر بمبئی چلے گئے۔ جیسا کہ انھوں نے خود بتایا ہے ریل کا کرایا ان کے ایک دوست نے دیا تھا۔ جب وہ بمبئی پہنچے تو وہ کسی کو نہیں جانتے تھے۔ جیسا کہ وہ کہتے ہیں: ’’ میں ایک ایک کا مہنہ تکتا تھا۔۔۔‘‘ وہ فلم اسٹوڈیوز کے پیدل چکر لگاتے رہے۔ کہ شاید کہیں کام مل جائے۔اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے فلمی سنگیت کے آسمان پر جگمگانے لگے اور اپنے ساتھ بہت سے روپوش ستاروں کو بھی روشن کر دیا۔

مجھے آج بھی یاد ہے جس زمانے میں میںاسکول میں پڑھا کرتا تھاتو ہر شخص کو نوشاد کا متوالا پاتا تھا۔ لکھنؤ کے ہر محلے کوچے میں نوشاد کے سنگیت اور دھنوں کی دھوم تھی۔ فِلم رتن میں زہرہ بائی کا گایا ہوا گیت ’’ آنکھیاں ملا کے جیا بھرما کےچلے نہیں جانا۔۔۔‘‘، فلم انمول گھڑی میں نورجہاں کا گانا ’’آجا مری برباد محبت کے سہارے، ہے کون جو بگڑی ہوئی تقدیر سنوارے۔۔۔‘‘، شاہجہاں میں گایا ہوا کے۔ ایل۔ سہگل کا گیت ’’ غم دئے مستقل، کتنا نازک ہے دل۔۔۔‘‘ اور ’’ جب دل ہی ٹوٹ گیا ، ہم جی کے کیا کریں گے۔۔۔‘‘اور بہت سے دوسرے گیت جن کی دھنیں نوشادنے بنائی تھیں اور سنگیت رچا تھا اکّے تانگے والوں تک کی زبانوں پر تھے۔پھر جب بیجو باورا جیسی فلمیں سامنے آئیں اور ہٹ ہوئیں تو ’تو گنگا کی موج میںجمنا کا دھارا۔۔۔‘‘ ، ’’ ہری اوم من تڑپت ہری درشن کو آج۔۔۔‘‘ اور ’’او دنیا کے رکھوالے سن درد بھرے میرے نالے۔۔۔‘‘جیسے گیتوں نے ہر طرف دھوم مچادی تھی اور ایسا لگتا تھا جیسے نوشاد کا سنگیت اور محمد رفیع کی آواز ہر انسان کے دل میں پیوست ہے۔اہل لکھنؤ کو فخر تھا کہ نوشادنے اپنے شہرکا نام سارے ملک میں چمکا دیا ہے۔


سنگیت کا مغلِ اعظم

عام طورسے نوشاد کو ہندوستانی فلمی موسیقی کا مغل اعظم سمجھا جاتا ہے۔ میں تو کہوں گا کہ وہ ایک ایسے انقلابی فنکار تھے جنھوں نے اپنے سنگیت سے ہندوستان کی فلمی زندگی میں ہلچل مچادی تھی اور فلمی سنگیت میں انقلاب پیدا کردیا تھا۔ انھیںاپنے استادوں سے کلاسیکی سنگیت کی بہترین تعلیم ہی نہیں ملی تھی اور لکھنؤ کی شعری و سنگیت کی فضا میںنشو نما ہی نہیں ہوئی تھی بلکہ اللہ تعالیٰ نے بے مثال شعور و ادراک اور احساس و مشاہدے کی نعمتیں بھی عطا کی تھیں۔

انھیں مناظر قدرت سے بیحد دلچسپی تھی اور گہرا مشاہدہ تھا۔ چنانچہ ایک ایسا فنکار آسمان پر اڑتی ہوئی بطخوں کی قائیں قائیں،پیڑوں پر چڑیوں کی چہچہاہٹ، کوئل کی کوک، پپیہے کی پی کہاں اور پھولوں کو چومتے ہوئے بھونروں کے ساز اور چمن میں اڑتی ہوئی رنگ برنگی تتلیوں کی خوبصورتی میںپنہاں سنگیت کو کیسے نہ پہچانتا۔وہ خود ایک حساس شاعر بھی تھے ۔لکھنؤ کے شاعرانہ ماحول میں پلے بڑھے تھے۔ اشعار کی باریکیوں سے واقف تھے۔ زندگی کے مختلف مرحلوں سے گزر چکے تھے۔
لوگوں کے دکھ درد کوسمجھتے تھے۔ چنانچہ ان تمام باتوں نے ان کے سنگیت کو جاندار بنا دیا تھا۔
وہ خود لکھتے ہیں:

دنیا والو مری آواز تو سَو بار سنی
دل بھی ٹوٹا ہے مرا اس کی بھی جھنکار سنی
کسی پتّے کے دھڑکنے کی صدا بھی تو نہیں
کس کی آواز بتا تونے دلِزار سنی
رات نوشاد  یہ کس بستی میں جا نکلے تھے
جس سے جو بات سنی ہم نے دل آزار سنی
اور پھر کہتے ہین:
روپ نغموں کا دے کے ہم نوشاد
اپنے دل کی پکار لے کے چلے


نوشاد کو اگرایم بھونانی، سی ایم لوہار، مَنی بھئی ویاس، مہندر ٹھاکر اور پی جے راج، ایم صادق،ایس یو سنّی ،نظیر اجمیری، ایم احسان،نیتین بوس، وجے بھٹ، راجہ نوائے، اے ۔آر ۔کاردار، محبوب خان اور کے آصف جیسے فلم پروڈیوسروں اور ڈائریکٹروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تو شکیل بدایونی، مجروح سلطانپوری،آنند بخشی،بی آر شرما، دینا ناتھ مدھوک، حسرت جے پوری، جان نثار اختر، کیف بھوپالی، خمار بارہ بنکوی، کیفی اعظمی، راجندر کرشن تنویر نقوی، ضیا سرحدی، حسن کمال اور کئی دیگر شعراء نے ان کے لئے بہترین گیت لکھے ۔ خصوصاً شکیل بدایونی کے ساتھ ان کا بہت لمبا اور گہرا ساتھ رہا۔ بیجو باورا اور مغل اعظم کی ڈائمنڈ جبلیوں کا سبب بہت حد تک نوشاد کا سنگیت، شکیل بدایونی کے گیت، رفیع اور لتا کی آوازوں کے جادو تھے۔

ان کے دور کی شاید ہی کوئی اچھی مغنیہ ایسی ہوگی جس نے ان کی دھن پر گیت نہ گائے ہوں۔ مثلاً امیر بائی کرناٹکی، سریا، نورجہاں، لتامنگیشکر، آشا بھونسلے، گیتا دت، شمشاد بیگم ۔ مغنیوں میںبڑے غلام علی، ہیمنت کمار، کے ایل سہگل، محمد رفیع، کشور کمار، طلعت محمود، استاد امیر خاں، پنکج ادھاس وغیرہ کے نام ہمارے سامنے ہیں، جنھوں نے اپنی سریلی آوازوں سے ان کے سنگیت کو اور چار چاند لگا دئے تھے۔

وہ نئے فنکاروں کی تلاش میں رہتے تھے اور ان کے ہنر کو پہچان کر انھیں ابھرنے کا موقع دیتے تھے ۔ ُسریا، اوما دیوی، مہندر کپور، لتا اور رفیع اس کی بہترین مثالیں ہیں۔

گلوکارہ ثریا کا انتخاب انھوں نے اس وقت کیا تھا جب اس کی عمر صرف 13 برس کی تھی ۔ اس وقت انھوں نے اسے فلم شاردا میںپلے بیک گانے کا موقع دیا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ فلم بیجو باورہ کے لئے نوشاد نے طلعت محمود کا انتخاب کیا تھا ، لیکن ایک دن انھوں نے طلعت محمود کو ریکارڈنگ روم میں سگریٹ پیتے ہوئے دیکھ لیا ۔ یہ بات انھیں اس قدر ناگوار گذری کہ انھوں نے طلعت کی جگہ محمد رفیع کو بیجو باورا میں گانے کے لئے موقع دیا، جو اتنے کامیاب ہوئے کہ اس کے بعد نوشاد کی زیادہ تر فلموں میں رفیع ہی نے گانے گائے۔


اسی طرح انھوں نے لتا اور کئی دوسرے فنکاروں کو ابھارا۔فلم چاندنی رات کی شوٹنگ کے دوران گائک دُرّانی لتا کولے کر نوشاد کے پاس گئے۔ فلم کے سب گانوں کی ریکارڈنگ مکمل ہو چکی تھی۔ نوشاد نے جب لتا کی آواز کو سنا تو وہ انھیں اس قدر پسند آئی کہ انھوں نے فوراً ایک دوگانہ تیا ر کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ لتا اس فلم میں گا سکے۔
’’ ہائے چھورے کی جات بڑی بے وفا‘‘ جسے لتا نے درّانی کے ساتھ مل کر گایا۔

لتا منگیشکر خود کہتی ہیں:

’’ میں 1948ء میں ان کے پاس کام کرنے کے لئے گئی تھی اور تب سے ان سے واقف ہوں۔ ان کی وفات سے موسیقاروںکی ایک نسل ختم ہو گئی ہے۔ ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کا دور جو ہماری فلموں میں تھا ختم ہو گیا ہے۔‘‘
میرے خیال سے نوشاد کی دھنوں پر سب سے زیادہ گیت لتا منگیشکر نے گائے ہیں جو ہٹ ہوئے ہیں۔مثلاً شکیل بدایوں کا لکھا ہوا یہ شعر : وہ آئی صبح کے پردے میں موت کی آواز
کسی نے چھیڑ دیا دل کی زندگی کا راز
جسے لتا منگیشکر نے خوبصورتی سے فلم مغل اعظم میں گایا تھا۔کہ راگ کلیان میں بندھے ہوئے اس شعر نے ایک انوکھا ماحول پیدا کر دیا تھا۔

بتایا جاتا ہے کہ فلم بیجو باورا کے لئے ہدایت کار وجے بھٹ نرگس اور دلیپ کمار کو اصلی رول دینا چاہتے تھے، مگر نوشاد نے مشورہ دیاکہ نئے فنکاروں کو موقع دیا جائے چنانچہ مینا کماری اور بھارت بھوشن کو یہ رول دئے گئے جو بہت کامیاب ہوئے۔ بیجو باورا کے سب گانوں کی دھنیںہندوستانی کلاسیکی راگوں پر مبنی تھیں۔

نوشاد کی ایک بڑی خصوصیت پس منظر سنگیت اور ڈانس سنگیت ہے۔ جس کی بہترین مثال مغل اعظم اور مدر انڈیا میں دیکھی جا سکتی ہے ۔ جس میں انھوں نے بہت سے تجربے کئے ہیں۔ ان کا خیال تھاکہ بغیر بیک گراؤنڈ میوزک کے فلم پھیکی ہوتی ہے۔

اس میں شک نہیں کہ نوشاد کے سنگیت کی بنیاد ہندوستانی کلاسیکی میوزک اور لوک سنگیت ہے جس میں ان کا شاید ہی کوئی ثانی ہوگا۔ مثلاً انھوں نے بیجو باورا میں لتا اور رفیع کی آواز میں بھیرویں میں گیت ‘‘تو گنگا کی موج میں جمنا کا دھارا ‘‘پیش کیا۔ راگ مالکوس میں ’’میں من تڑپت ہری درشن کو آج‘‘ رفیع کی آواز میںپیش کیا ۔ اکبر کے دربار کا وہ سین جس میں تان سین اور بیجو باورا اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیںاس میں ڈی وی پالوسکر اور امیر خاں جیسے ماہروں کے فن کا خوبصورتی سے استعمال کیا۔

فلم مغل اعظم میں بڑے غلام علی نے نوشاد کے سنگیت پر راگ راگیشری میں ’’ شبھ دن آیو راج دُلارا۔۔۔‘‘ اور ’’ پریم جوگن بن کے سندری پیا او چلو۔۔۔‘‘ گیت گائے۔ نیز تان سین کو تان پورا پر راگ پوریا کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔ استاد رئیس خاں کے ستار سے فلم گنگا جمنا میں لتا منگیشکر کے گائے ہوئے گیت ’’ ڈھو نڈو ھونڈو رے سجنا ڈھونڈھو۔۔۔‘‘میں جان ڈال دی۔
انھوں نے ضرورت کے مطابق مغربی سنگیت کا بھی خوبصورتی سے استعمال کیا ہے۔ان کے بیک گراؤنڈ میوزک میں ہندوستانی اور مغربی دونوں عناصر موجود ہیں۔ وہ ان چند موسیقاروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے بیک گراؤنڈ میوزک کا خوبصورتی سے استعمال کیا تھا اور اس سے ماحول قائم کیا تھا۔ اس کی بہترین مثال فلم مغل اعظم میں ان کا سنگیت ہے۔

انھوں نے آرکسٹرا کا بھیء نہایت ہی کامیابی سے استعمال کیا ہے۔ فلم آن کے لئے کہا جاتا ہے کہ انھوں نے ایک سین کے لئے 100 پیس کے آرکسٹرا سے کام لیا۔ وہ پہلے سنگیت کار ہیں جنھوں نے sound mixing کا استعمال کیا۔ اور آواز و موسیقی کو الگ الگ ریکارڈ کر کے ملایا۔ فلم اڑن کھٹولا میں تو انھوں نے بغیر آرکسٹرا کے ایک پورا گیت ریکارڈ کیا۔ہندوستانی باجوں کے ساتھ انھوں نے مغربی باجے مثلاً منڈولین، کلارینیٹ، اکارڈین وغیرہ کا استعمال کیا۔

فلم مغل اعظم میں لتا کے گیت ’’ تمھاری دنیا سے جا رہی ہوں۔۔۔‘‘ کے بعد نو شاد نے راگ کلیان سے پر اثرماحول بنایا ۔

بہر حال عرصہ دراز تک بالی ووڈ پر چھایا رہنے والا اور فلمی سنگیت میں انقلاب لانے والا یہ مغل اعظم، جس نے معیاری سنگیت کے لئے اپنی زندگی وقف کی تھی ، بالی ووڈ کے بدلتے ہوئے ماحول سے مایوس ہو کر خود ہی کنارہ کش ہو گیا۔ اس کی فلموں میں اب باکس آفس کے لئے کشش نہیں تھی۔ لوگوں کا مزاج بدل رہا تھا۔ مغربی سنگیت اور رقص رمبا سمبا چھا چھا چھا اب نوجوانوں میں مقبول ہو رہے تھے۔ ان حالات میں نوشاد نے، جو سنگیت کے فن میں سمجھوتے بازی کے قائل نہیں تھے، تقریباً کنارہ کشی اختیار کر لی۔ ان کی آخری کامیاب فلم کمال امروہوی کی ’’پاکیزہ ‘‘ تھی جس کے لئے غلام محمد اور نوشاد نے سنگیت رچا۔ اور جس نے گولڈن جبلی منائی تھی۔

انعامات

نوشاد کو لاتعدا د قومی اور بین الاقوامی انعامات سے سرفرازکیاگیا تھا جن میں سے مندرجہ ذیل ایوارڈوں کی خاص اہمیت ہے:

وہ پہلے شخص تھے جنھیں 1955ء میں فلم فیر ایوارڈدیا گیا۔
اپنے سنگیت کے لئے انھیں 1955ء میں ’دادا صاحب پالکی ایوارڈ‘ ملا۔
1977ء میں مہاراشٹر سرکار نے انعام دیا۔
1984 میں مدھ پردیش سرکار نے لتا منگیشکر ایوارڈ دیا۔
1985ء میں یو پی سنگیت ناٹک اکاڈیمی نے ’رتن‘ ایوارڈ دیا۔
مرکزی ناٹک اکاڈیمی نے 1992ء میں ایوارڈ دیا۔
ہندی اردو ساہت اکاڈیمی نے انھیں سرفراز کیا اور
1992ء میں صدر جمہوریہ نے ’پدم بھوشن‘ ایوارڈ سے نوازا۔

مجھے آج بھی یاد ہے۔ 1993ء میں میں چھٹیاں منانے کے لئے اپنی جائے پیدائش لکھنؤ گیا ہوا تھا۔ ایک دن مجھے ایک دعوت نامہ ملا۔ 29 اکتوبر کو نوشاد کے اعزاز میں بیگم حضرت محل پارک میںلکھنؤ کے شہریوں کی طرف سے ایک بہت بڑا جلسہ ہونے جا رہا ہے اور انھیں ’’ اودھ رتن‘‘ ایوارڈ سے نوازا جائے گا۔فلم اداکار دلیپ کمار اور سنیل دت بھی اس میں شرکت کے لئے بمبئی سے آنے والے تھے۔ بہرحال جلسہ واقعی بہت شاندار ہوا۔ ڈائس پر نوشاد، دلیپ۔ سنیل، اتر پردیش کے گورنر موتی لال وورا اور شہر کے مئیر اکھلیش چندر بیٹھے تھے اور ہزاروں لوگ جوش خروش سے محبت کی بارش کر رہے تھے۔ مختصر سی ملاقات کے بعد یہ طے ہو ا کہ میں دوسرے دن یعنی 30 اکتوبر کو گورنر ہاؤس میں جہاں وہ تینوں مقیم تھے ان سے ملوں تاکہ اطمینان سے گفتگو ہو سکے۔

 چنانچہ دوسرے دن جب میں دلیپ، سنیل اور نوشاد سے گورنر ہاؤس میں ملا تو لگتا ہی نہیں تھا کہ جیسے نوشاد کو کوئی بڑا اعزاز دیا گیا ہے۔ وہ اس دن بھی ہمیشہ کی طرح منکسر المزاج اور حلیم نظر آرہے تھے جیسے ہمیشہ رہتے تھے۔ انھیں سب سے زیادہ خوشی اس بات کی تھی کہ اپنے شہر میں پھر سے آنے اور بہت سے مقامی لوگوںسے ملنے کا موقع ملا تھا۔ اسی دن شہر میں ایک نوشاد مرکز کا افتتاح دلیپ کمار کے ہاتھوں ہونے جارہاتھا،جسے موسیقی، غزلیات، بھجن وغیرہ کے فروغ کے لئے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اتر پردیش کے گورنر نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ ’’نوشاد انعام‘‘ کے نام سے ایک ٹرسٹ قائم کیا جائے گا ، تاکہ فنکاروں کو ہر سال نوازا جائے۔ ان تمام منصوبوں کا کیا حشر ہو اہے یہ میں فی الحال نہیں بتا سکتا۔

مثالی زندگی

نوشاد کی زندگی اور جدو جہد کی کہانی ابھرتے ہوئے فنکاروں کے لئے مثال ہے۔ انسان میں اگر ہنر اور شعور ہے۔جدوجہد کا جذبہ اور ثابت قدمی ہے تو وہ کامیابی کی منزلوں تک پہنچ سکتا ہے۔

نوشاد نے اپنی زندگی میں بہت سی صعوبتوں کا سامنا کیا تھا ۔خصوصاًبمبئی پہنچنے کے بعدانھوں نے دربدر کی خاک چھانی تھی ۔
1937 میں جب وہ بمبئی پہنچے تو جیسا کہ وہ خود کہتے ہیں : ’’ایک ایک کا مہنہ تکتا تھا، کہ کسی فلم کمپنی میں کام مل جائے۔‘‘ آخر کار انھیں ایک نئی فلم کمپنی میں جو ’ ’سنہری مکڑی‘ ‘ تیار کر رہی تھی ، آرکسٹرا میں کام مل گیا، جس کے میوزک ڈائریکٹر استاد جھنڈے والان تھے۔ ایک بار جھنڈے والان جی کو ’’کیوں اے دلِ دیوانہ ہے عقل سے بیگانہ‘ ‘ گیت کی دھن بنانے میں کچھ دشواری ہو رہی تھی۔ نوشاد نے ان سے اجازت لے کر اس گانے کی دھن بنا دی جو استاد جھنڈے والان کوبہت پسند آئی۔ بدقسمتی سے وہ فلم ریلیز نہ ہو سکی۔
اس کے بعد انھو ں نے سنگیت کار مشتاق حسین کے آرکسٹرا میں کام کیا اور پھر رنجیت اسٹوڈیو میں سنگیت کا رمنوہر کپور کے ساتھ کام کیا۔ گیت کا رڈی این مدھوک ، جنھیں وہ اپنے والد کی طرح مانتے تھے، ان سے اتنا متاثر ہوئے کہ انھوں نے اسٹوڈیو کے مالک چندو لال شاہ سے سفارش کی اور نوشاد کو فلم ’’کنچن‘ ‘ کے لئے سنگیت رچنے کا کام سونپا گیا۔
مشہور اداکارہ لیلا چٹنس اس فلم میںگیت’ ’ بتا دو مجھے کون گلی گئے شیام‘ ‘ گارہی تھی۔ نوشاد نے رنجیت اسٹوڈیو کے اندرونی معاملات سے بے زار ہوکر اس فلم کو چھوڑ دیا۔ اس کے بعد مدھوک نے انھیں پروڈیوسر ’موہن بھونانی سے متعارف کرایا ، جو فلم پریم نگر تیار کر رہے تھے۔ یہ ان کے لئے ایک اہم بریک تھرو تھا۔ انھیں اس فلم کا سنگیت ڈائریکٹ کرنے کا کام سونپا گیا۔ دینا ناتھ مدھوک نے ’پرکاش اسٹوڈیو‘ کے مالک وجے بھٹ اور شنکر بھٹ سے بھی ان کی سفارش کی اور نوشاد کوفلم’ ’مالا‘ ‘ ، ’’درشن‘ ‘ اور’ ’اسٹیشن ماسٹر‘‘ کے لئے سنگیت تیار کرنے کا کام مل گیا۔
’’اسٹیشن ماسٹر‘‘ بہت کامیاب ہوئی اور اس کے تمام گیت بہت مقبول ہو ئے، خاص طور سے گیت:’’کبھی نہ ہمت ہار بندے جیون ہے کھلواڑ‘‘، جسے امیر بائی کرناٹکی نے گایا تھا بہت مقبول ہوا۔

اس کے بعد انھوں نے کاردار کی فلمو ں کے کئے کام کیا اور ان کی 15 فلموں میں سنگیت دیا، جن میں سے 13 نے سلور جبلی منائی۔ نوشاد اور کاردار نےمل کر ایک ’میوزیکل پکچرس‘ نامی تنظیم قائم کی جس کے تحت فلم ’جادو‘ اور فلم ’داستان‘ بنائی گئیں۔ دونوں فلموںکی سلور جبلی ہوئی۔بعد میں نوشاد نے محبوب خان کے ساتھ کام کیا اور ان کی جو فلمیں خاص طور سے کامیاب ہوئیں ان میں مندرجہ ذیل شامل ہیں:
’’انمول گھڑی‘‘، ’’ اعلان‘ ‘ ،’ ’انوکھی ادا‘‘، ’’انداز‘‘، ’’آن‘‘ ، ’’اَمر‘‘، ’’مدر انڈیا‘‘ ، ’’سن آف انڈیا‘‘۔’’ آن‘‘، ’’ مدر انڈیا‘‘ اور ’’انداز‘‘ نےگولڈن جبلی کی۔ انھیں دو اور فلموں ’ہمارا وطن‘ اور ’حبہ خاتون‘ کا سنگیت تیار کرنے کا کام بھی سونپا گیا تھا مگر بدقسمتی سے 1964ء میں محبوب خاں کا انتقال ہو گیا۔
 
محبوب خاں اپنے وقت کے سب سے کامیاب ہدایت کار اور پروڈیوسر تھے۔جن کا نام بر صغیر میں احترام سے لیا جاتا تھا۔
مجھے یاد ہے ۔ ایک بار میں نے اداکارہ نرگس دت سے، جو محبوب خاںکی فلم ’’مدر انڈیا ‘‘ کی ہیروئن تھیں اور بعد میںاداکاری سے قطع تعلق ہوگئی تھیں ایک نجی گفتگو کے دوران پوچھا تھا کہ فلموں میں کام کرنا کیوں بند کر دیا ہے؟ تو ان کا جواب تھا : ’’ عارف، مجھے محبوب صاحب کے بعد اس پایہ کا کوئی ہدایت کار نظر نہیں آیا۔‘‘

محبوب اور کاردار کے علاوہ نوشاد نے دوسرے پرود ڈیوسروں کی فلموں میں بھی سنگیت دیا۔ مثلاً جیمنی پروڈکشن کی ’’رتن‘ ‘ جس نے ڈائمنڈ جبلی کی،واڈیا فلمس کی ’’میلہ‘‘، صادق پروڈکشن کی’’ شباب’‘، ریپبلک فلم کارپوریشن کی’ ’کوہِ نور‘‘ ۔ سیٹیزن فلم کی ’’گنگا جمنا‘‘، راہل تھیٹر کی ’’میرے محبوب‘‘ ،ٹی وی سیریل ’’ دی سوورڈ آف انڈیا (ٹیپو سلطان)‘‘اور وجے انٹرنیشنل (مدراس) کی ’رام اور شیام‘۔ ساتھ ہی ڈائریکٹر سننی کے ساتھ انھوں نے فلم’شباب‘ اور ’اڑن کھٹولا‘ کا سنگیت تیار کیا۔

اپنی 48 سال کی فلمی سرگرمیوں کے دوران نوشاد نے 66 فلموں کے لئے میوزک تیار کیا، جن میں فلم’آن‘ کا تامل روپ اور ’مغل اعظم‘ کا تامل اور انگریزی روپ شامل ہیں۔ نیز ایک بھوجپوری فلم ’پان کھائے سیّاں ہمار ‘ اور ملیالم فلم ’دھونی‘ بھی ہیں جن کے گیت نوشاد نے تیار کئے تھے۔

ان کی آخری نہایت کامیاب فلم ہم ’پاکیزہ کہہ سکتے ہیں جس میں غلام محمد اور نوشاد نے سنگیت دیا ہے اور 1971 میں ریلیز ہو ئی تھی۔جس نے گولڈن جوبلی کی تھی۔

ایک خاص بات یہ کہ نوشاد نے کبھی کبھی لتا اور رفیع کے لئے نہایت ہی مشکل دھنیں تیار کیں اور ان دونوںفنکاروں نے انھیں مہارت کے ساتھ اپنی آوازوں سے جاوداں بنا دیا۔
لتا خود کہتی ہیں:
’’ بیجو باورا میں انھوں نے جو سنگیت تیار کیا اس نے خود مجھے حیرت میں ڈال دیا تھا۔ مختلف نوعیتوں میں مختلف راگ استعمال کئے گئے اور بہت حد تک راگوں کی purity پاکیزگی قائم رکھی گئی۔‘‘
نوشاد کا انتقال 5 مئی 2006 کو ممبئی میں عرب ساگر کے قریب ان کے گھر ’ ’ آشیانہ‘‘ میں ہوا۔
ان کے بارے میں بہت کچھ کہا اور لکھا گیا ہے ۔ مدر انڈیا، بیجو باورا اور مغل اعظم جیسی لافانی فلمیںآج بھی زندہ جاوید ہیں اور ان کی موسیقی اور دھنیں لوگوںکے دلوں میں زندگی کا رس گھول رہی ہیں اور ہمیں غالب کا یہ شعر یاد آجاتا ہے:

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں

 


Datenschutzerklärung
powered by Beepworld